طرابلس حکومت سے رابطے باقاعدہ مذاکرات نہیں، فرانس
12 جولائی 2011فرانس کے اس مؤقف کو اس بات کا اشارہ قرار دیا جا رہا ہے کہ لیبیا کی حکومت اور نیٹو کے درمیان موجودہ بحران کا حل نکالنے کے لیے رابطے موجود ہیں۔
فرانسیسی وزیر خارجہ ایلاں ژوپے نے رابطہ کاروں کے بارے میں تفصیل بتائے بغیر کہا، ’’رابطہ کاروں کے بقول قذافی اقتدار سے رخصت ہونے پر تیار ہیں۔ اس لیے ہمیں اس بارے میں بات چیت کرنی چاہیے۔‘‘
نیٹو کے رکن ممالک اب تک اپنی توجہ لیبیا پر فضائی حملوں اور باغیوں کی حمایت پر مرکوز رکھے ہوئے تھے، لیکن لیبیا کے پانچ ماہ پرانے تنازعے کے حل کے لیے ابھی تک کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اس لیے نیٹو نے اب اس مسئلے کے سیاسی حل پر توجہ دینا شروع کر دی ہے۔ فرانسیسی وزیر خارجہ ژوپے نے ’فرانس انفو‘ نامی سرکاری ریڈیو کو بتایا کہ لیبیا کے تنازعے میں ہر کوئی ہر کسی کے ساتھ رابطے میں ہے۔
ایلاں ژوپے کے مطابق لیبیا کی حکومت ترکی، نیو یارک ، پیرس سمیت ہر جگہ اپنے مندوبین بھیج رہی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ یہ صرف رابطے ہیں۔ ان رابطوں کو باقاعدہ مذاکرات نہیں کہا جا سکتا۔ خبر ایجنسی روئٹرز نے لکھا ہے کہ ایسے رابطہ کاروں کے بیانات کتنے قابل اعتماد ہیں، اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
اس سال فروری میں مصر اور تیونس میں حکمرانوں کے خلاف عوامی مظاہروں کے آغاز کے بعد لیبیا میں بھی عوام نے قذافی انتظامیہ کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کر دی تھی۔ اس پر ملکی سکیورٹی فورسز نے کریک ڈاؤن شروع کر دیا، جس میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپوں کے مطابق ہزاروں افراد مارے گئے تھے۔
نیٹو نے لیبیا کے خلاف اپنے فضائی مشن کا آغاز ایک ماہ بعد مارچ میں اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کی منظوری کے بعد کیا تھا۔ اس کا مقصد لیبیا کے شہریوں کا تحفظ تھا۔ اس دوران معمر قذافی نے یہ دعوے بھی کیے تھے کہ لیبیا میں باغی جرائم پیشہ عناصر اور القاعدہ کے دہشت گرد ہیں جبکہ نیٹو آپریشن لیبیا کا تیل چوری کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
لیبیا میں مغربی ملکوں کے حمایت یافتہ مقامی باغی پیش قدمی تو کر رہے ہیں مگر اس پیش قدمی کی رفتار بہت سست ہے۔ اس دوران قذافی کی حامی فوجوں کو بھی پوری طرح غیر مؤثر نہیں بنایا جا سکا۔ پیر کی رات بندرگاہی شہر مصراتہ کے قریب قذافی کی فوجوں نے جنگجو باغیوں کے ٹھکانوں پر گولہ باری کر کے کم از کم آٹھ باغیوں کو ہلاک اور پچیس کو زخمی کر دیا۔
کئی ماہرین کی رائے میں معمر قذافی اقتدار سے دستبردار ہونے پر صرف اسی صورت میں تیار ہو سکتے ہیں جب ان کے پاس کوئی اور راستہ باقی نہ رہے۔ ماہرین کے مطابق یہ بھی ممکن ہے کہ قذافی کی طرف سے اب کیے جانے والے رابطے مغربی دنیا کے لیبیا مشن سے متعلق ارادوں میں کمزوری کے آثار کا نتیجہ ہوں۔
دوسری طرف کئی اہم نیٹو ممالک لیبیا کے ساتھ مذاکرات کے حق میں ہیں۔ لیبیا کے ہمسایہ ملک الجزائر کا دورہ کرنے والے اطالوی وزیر خارجہ فرانکو فراتینی نے آج منگل کے روز کہا کہ اس بارے میں مذاکرات ہونے چاہیئں۔ فرانکو فراتینی نے الجزائر کے روزنامہ الاخبار کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’ہم اس بات کے قائل ہیں کہ لیبیا کا بحران ایک سیاسی حل کا تقاضا کرتا ہے۔ اس حل کے تحت لڑائی کا خاتمہ ہونا چاہیے، قذافی کو رخصت ہونا ہو گا اور لیبیا میں حقیقی جمہوری عمل کے لیے ہر سطح پر جامع مکالمت لازمی ہو گی۔‘‘
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: افسر اعوان