طورخم تنازعہ، افغان وفد کی پاکستانی حکام کے ساتھ میٹنگ
20 جون 2016
پاکستانی وفد کی قیادت سیکریڑی خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے کی۔ ملاقات کے بعد جاری کئے جانے والے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے، ''آج کی ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی اور دونوں جانب سے خواہش ظاہر کی گئی کہ سرحدی معاملات کو خوش اسلوبی سے حل کیا جائے۔ اس پر اتفاق کیا گیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اس مسئلے پر مزید بات چیت افغان وزیرِ خارجہ اور ان کے پاکستانی ہم منصب کے درمیان ہونے والی ملاقات میں کی جائے گی ،جو تئیس اور چوبیس جون کو ایس سی او اجلاس کے موقع پر ہوگی۔‘‘
واضح رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ دنوں میں طورخم کی سرحد پر اسلام آباد کی طرف سے کی جانے والی بعض تعمیرات پر تنازعہ پیدا ہونے سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو گئی ہے۔ سرحد پر سیکورٹی فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا تھا، جس میں ایک پاکستانی میجر بھی جاں بحق ہوا۔ صورتِ حال کو معمول پر لانے کے لئے دونوں ممالک کے حکام میں رابطہ پیدا ہونے کے بعد پاکستان کے مشیر خارجہ نے افغان حکام کو بات کی دعوت دی تھی۔
اس ملاقات پر تبصرہ کرتے ہوئے وفاقی اردو یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکڑ توصیف احمد نے کہا۔، ''میرے خیال میں صورتِ حال کشیدہ نہیں رہے گی اور آہستہ آہستہ بہتر ہو جائے گی۔ کیونکہ پاکستان آرمی جو ملک کی خارجہ پالیسی چلا رہی ہے اس کو یہ معلوم ہے کہ افغان حکومت کے پیچھے امریکی ہیں اور ان کو ناراض کرنا پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ امریکہ نے ایف سولہ اور این ایس جی کے حوالے سے پہلے ہی پاکستان پر دباو ڈالا ہوا ہے ۔‘‘ ڈاکٹر توصیف احمد کے مطابق اسلام آباد مزید دباو کا متحمل نہیں ہوسکے گا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ''اگر یہ مسئلہ بگڑتا ہے تو پاکستان کے لئے کافی نقصان دہ ہوگا۔‘‘ اُن کے مطابق پاکستان کے تعلقات بھارت اور ایران سے پہلے ہی بہتر نہیں ہیں اور افغانستان سے بھی تعلقات خراب ہو گئے تو یہ اسلام آباد حکومت کے مفاد میں نہیں اور اِس باعث پاکستان چاروں طرف سے مشکلات میں گِھر جائے گا۔ ڈاکٹر توصیف احمد کے مطابق افغانستان ڈیورنڈ لائن کے مسئلے پر کافی حساس ہے اور امریکہ نے ہی کابل انتظامیہ کو یہ تاثر دے رکھا ہے کہ وہ ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد سمجھتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد حکومت خود کو تنہا مت کرے اور مسئلہ کو بات چیت سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔
کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابقہ چیئرپرسن ڈاکڑ طلعت اے وزارت نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''پاکستان افغانستان پر الزام لگاتا ہے کہ اِس نے فضل اللہ کو پناہ دے رکھی ہے اور وہاں سے دہشت گرد آکر پاکستانی علاقوں پر حملہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسلام آباد کا یہ بھی شکوہ ہے کہ را کا نیٹ ورک افغانستان میں چل رہا ہے۔ کابل انتظامیہ بھی یہ الزام لگاتی ہے کہ دہشت گرد پاکستانی علاقوں سے جاکر افغان علاقوں میں تخریب کاری کرتے ہیں ۔ میرے خیال اِس کی روک تھام کے لئے ایک نہیں پانچوں داخلی راستوں پر گیٹ لگانے ضروری ہیں اور سرحد کی موثر انداز میں نگرانی کرنی چاہیئے ۔‘‘
ڈاکٹر طلعت کے مطابق اِس عمل سے دونوں ملکوں میں دہشت گردی کم ہوگی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان نے تیس لاکھ افغان مہاجرین کی دیکھ بھال کی اور انہیں پناہ دی۔ اور ماضی کے حقائق کے تناظر میں دونوں ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات ہونے چاہییں۔ ڈاکٹر طلعت نے یہ بھی کہا کہ دیرپا امن کے لئے افغان مہاجرین کے واپس جانے کے علاوہ سرحدوں کی نگرانی کے نظام کو مزید سخت بنانا بہت اہم ہے۔