دنیا میں رونما ہونے والے واقعات، حادثات، تہذیبی، مذہبی اور نظریاتی تصادم حالات اور ماحول بدل دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں تاریخ نویسی بھی برابر تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ جب تاریخی معلومات جمع ہو گئیں، تو بڑی سلطنتوں کے مورخین نے یونیورسل تاریخ لکھ کر اپنی اپنی سلطنت کی برتری اور پھیلاؤ کو بیان کیا۔ یونیورسل تاریخ نے مختلف تہذیبوں کے بارے میں معلومات فراہم کیں، جس کی وجہ سے ادب، آرٹ، موسیقی، مجسمہ تراشی کی نئی اقسام سامنے آئیں، خاص طور پر تاریخ نویسی میں ریاست کی دستاویزات کو بھی استعمال کیا گیا، جس نے تاریخ کے گمشدہ گوشوں کو نمایاں کیا۔
یونیورسل تاریخ کے بعد جدید دورمیں تاریخ کا پھیلاؤ بڑھ گیا ہے۔ بیسویں صدی میں فرانسیسی مورخوں کی جانب سے وضع کیے گئے تاریخ نویسی کی طرز، جسے انال اسکول کہا جاتا ہے، سے وابستہ مورخوں نے ٹوٹل ہسٹری کا نظریہ پیش کیا اور تاریخ میں عمرانیات، نفسیات، علم بشریات اور لٹریچر کو بھی ماخذ کے طور پر استعمال کیا۔ اس طریقہ کار نے تاریخ نویسی کو ایک نئی شکل دی۔ یونیورسل تاریخ کے دائرے میں ہر تہذیب کی انفرادی خصوصیات بیان کی جاتیں تھیں اور ان کے باہمی تعلق اور روابط کو نظرانداز کر دیا جاتا تھا۔ مثلاً اوسوالڈ سپینگلر نے 1936ء میں اپنی کتاب Decline of the West میں تہذیبوں کے آرٹ کا مطالعہ پیش کیا اور ہر تہذیب کو انفرادی حیثیت دی۔ یعنی ان کا ایک دوسرے سے ربط نہیں تھا۔ اسی طرح انگلش مورخ آرنلڈ جے ٹوئن بی نے اپنی کتاب A Study of History میں 23 تہذیبوں کا ذکر کیا ہے، جو ایک دوسرے سے جدا ہیں۔
موجودہ دور میں World History کے موضوع پر تحقیق ہو رہی ہے۔ اس موضوع پر جو کتابیں لکھیں گئی ہیں، ان میں دنیا کی تہذیبوں کا باہمی مقابلہ کیا گیا ہے، جیسے چین کے ہان خاندان اور رومن سلطنت کا مقابلہ کرتے ہوئے بیان کیا گیا ہے کہ ان دونوں کی تاریخ میں کس حد تک مماثلت ہے اور یہ دونوں کس حد تک ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کی مختلف تہذیبوں کا مطالعہ کر کے ان کی ابتداء، ارتقاء اور ترقی کو دیکھا جائے۔ اس وقت یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں ورلڈ ہسٹری کا مضمون مقبول ہو رہا ہے اور اس پر بھی بحث ہو رہی ہے کہ کونسی تہذیب دوسروں سے برتر ہے اور کیا یہ برتری قائم رہنے والی ہے یا عروج و زوال میں یہ پسماندہ ہو کر ختم ہوجائے گی۔
صنعتی انقلاب نے نہ صرف یورپی سوسائٹی کو بدلا بلکہ اس نے سرمایہ داری کو تخلیق کیا۔ آذاد منڈیوں کے تصور کو پھیلایا۔ نوآبادیات اور سامراج کے ذریعے ایشیا اور افریقہ میں اپنی کالونیاں قائم کیں۔ سیاسی تسلط کے ساتھ ساتھ یورپی ملکوں نے ان کالونیوں کی تاریخ لکھ کر نسل پرستی اور سرمایہ داری کو فروغ دیا۔ ان حالات میں اس وقت تبدیلی آئی، جب پہلی جنگ عظیم نے یورپ کی سیاست کو بدلا۔ روسی زار، جرمن قیصر اور عثمانی خلافت کا خاتمہ ہوا۔ اس کے ساتھ ہی یورپی کالونیوں میں سامراج کے خلاف آذادی کی تحریکیں اٹھیں۔ ان تحریکوں کی بنیاد ماضی کی تاریخ پر تھی۔
ہندوستان میں مورخوں نے مغل عہد کو ہندو مسلم اتحاد کا دور کہا۔ مورخوں نے ہندو تہذیب اور اس کے فلسفے کو پیش کر کے اپنی تہذیبی برتری کو ثابت کیا۔ یہی صورتحال چین میں پیش آئی، جہاں مغربی تسلط کے خلاف چینی قوم پرستی کے جذبات کو ابھارا گیا۔ ہندوستان میں نو آبادیاتی دورمیں تاریخ لکھنا مشکل تھا کیونکہ برطانوی حکومت کسی بھی قومی تحریک کو برداشت نہیں کرتی تھی۔ مثلاً 1857ء کے واقعات پر ہندوستانی نقطۂ نظر سے لکھنا ممنوع تھا۔ اس لیے نوآبادیاتی دور میں مارکسسٹ مورخوں کو بھی آذادی نہیں تھی۔
1947ء میں آذادی کے بعد مورخ بھی تاریخ لکھنے میں آذاد ہو گئے۔ لیکن اس مرتبہ ان کا مقابلہ یورپ سے آنے والی گلوبل تاریخ سے تھا۔ یورپ اور امریکہ کو اب اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کے لیے گلوبل تاریخ کی ضرورت تھی۔ جس میں قومی تاریخوں کو ملا کر ان کی اہمیت کو بھی ختم کر دیا جائے۔ کیونکہ قومی تاریخ ہی قومی شناخت پیدا کرتی ہے۔ یہ قومی صنعت و حرفت کو تحفظ دیتی ہے، قومی کلچر پر فخر کرتی ہے اور قومی زبان کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کرتی ہے۔ گلوبل تاریخ کے لیے یہ سب رکاوٹیں تھیں جبکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ قومی شناخت کی جگہ لوگوں کو عالمی شہری بنایا جائے۔ تا کہ وہ امریکی اور یورپی اشیاء خریدیں۔ اس کے علاوہ گلوبل ہسٹری کو یورپ پر مرکوز نقطہ نظر سے لکھا گیا یعنی یورپ علوم و فنون اور تہذیبی اعتبار سے برتر ہے اور تیسری دنیا کے ملکوں کو اس کی تقلید کرنی چاہیے۔
گلوبل تاریخ کے ردعمل میں تیسری دنیا کے ملکوں میں قومی تاریخ کا جذبہ پیدا ہوا، اس منصوبے کے تحت ان ملکوں میں تاریخی دستاویزات کو جمع کیا گیا۔ وہ دستاویزات جو یورپ کے سامراجی ملک لے گئے تھے، انھیں واپس لانے کی کوششیں ہوئیں۔ خاص طور سے آذادی کی تحریکوں کو اہمیت دی گئی۔ مثلاً برطانوی مورخین کا کہنا ہے کہ برطانوی حکومت نے ہندوستان کو ترقی یافتہ ملک بنایا۔ کیمبرج ہسٹری اور انڈیا کے ایک مورخ کا کہنا ہے کہ اہل ہندوستان نے بغاوت کر کے برطانیہ کے ساتھ احسان فراموشی کی۔
ہندوستان کے مورخوں نے اپنی قومی تاریخ پر بےشمار کتابیں لکھیں ہیں، جن میں برطانیہ کے اس نقطۂ نظر کو رد کیا گیا کہ ان کی حکومت ہندوستان کے لیے باعثِ رحمت تھی۔ لیکن پاکستان میں نہ تو برطانوی نوآبادیاتی حکومت کے بارے میں کسی قسم کے خیالات ہیں اور نہ ہی قومی تاریخ کی بنیادیں ہیں، جب کوئی بھی سوسائٹی اپنی تاریخ سے محروم ہو جائے تو وہ لاعلمی کا شکار ہو کر ذہنی انتشار میں مبتلا ہو جاتی ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔