عالمی رہنما ’ماحولیاتی ایمرجنسی‘ کا اعلان کریں، اقوام متحدہ
13 دسمبر 2020گوٹیرش نے کہا کہ عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے صورت حال بہت 'ڈرامائی‘ شکل اختیار کر چکی ہے اور اس کے تدارک کے لیے ٹھوس اور دور رس اقدامات کی ضرورت ہے۔
جی 20 ممالک میں صرف بھارت گلوبل وارمنگ اہداف سے سب سے قریب تر
عالمی ادارے کے سیکرٹری جنرل نے یہ بات اقوام متحدہ کی ایک ایسی ورچوئل ماحولیاتی سربراہی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی، جو پیرس میں 2015ء میں طے پانے والے عالمی ماحولیاتی معاہدے کے پانچ برس پورے ہونے کے موقع پر منعقد کی گئی۔
انٹونیو گوٹیرش نے اس سمٹ سے اپنے خطاب میں کہا کہ عالمی رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ بلا جھجھک اپنے اپنے ممالک میں 'ماحولیاتی ایمرجنسی‘ کا اعلان کریں تا کہ عالمی درجہ حرارت میں مسلسل اضافے کے تباہ کن اثرات کا مقابلہ کیا جا سکے۔
ہوش ربا انکشافات: اقوام متحدہ کی نئی عالمی ماحولیاتی رپورٹ
تین ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد تک کا ممکنہ اضافہ
اقوام متحدہ کی یہ ایک روزہ آن لائن ماحولیاتی سمٹ کل ہفتے کے روز قبل از دوپہر شروع ہو کر رات گئے تک جاری رہی اور اس میں بیسیوں ممالک کے رہنماؤں نے خطاب کیا۔
سیکرٹری جنرل گوٹیرش نے افتتاحی خطاب میں کہا کہ اگر ماحولیاتی تبدیلیوں کے وجہ بننے والے حالات میں فوری بہتری کا عمل شروع نہ کیا گیا، تو رواں صدی کے آخر تک زمین کے درجہ حرارت میں تین ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد تک کا اضافہ ممکن ہے۔
اس سال جولائی میں گرمی کے پچھلے تمام عالمی ریکارڈ ٹوٹ گئے
سمٹ کے شرکاء سے اپنے خطاب میں سیکرٹری جنرل نے زور دے کر کہا کہ زمینی درجہ حرارت میں اضافے کو کم سے کم رکھنے کے لیے اب تک جتنے بھی اقدامات کیے گئے ہیں، وہ مطلوبہ ہدف سے تشویش ناک حد تک کم ہیں۔
'حقیقت سے انکار کوئی بھی نہیں کر سکتا‘
انٹونیو گوٹیرش کے الفاظ میں، ''کیا آج کوئی بھی شخص اس امر سے انکار کر سکتا ہے کہ ہمیں تحفظ ماحول کے حوالے سے ایک ڈرامائی ایمرجنسی کا سامنا ہے۔ اسی لیے میں تمام عالمی رہنماؤں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اپنے اپنے ممالک میں ہنگامی صورت حال کا اعلان کریں۔ زمینی درجہ حرارت میں تیز رفتار اضافے کو روکنے کے لیے نتیجہ خیز اقدامات اس وقت تک جاری رہنا چاہییں، جب تک زہریلی اور ماحول کے لیے نقصان دہ کاربن گیسوں کے اخراج کی شرح نیوٹرل نہیں ہو جاتی۔‘‘
’گزشتہ دس برس تاریخ کے گرم ترین سال‘
چینی اور بھارتی لیڈروں کے موقف
اس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چینی اور بھارتی رہنماؤں نے ان عزائم کا اعادہ کیا کہ وہ اپنے اپنے ممالک میں کاربن گیسوں کے اخراج کی شرح میں واضح کمی کریں گے۔
چینی صدر شی جن پنگ نے کہا کہ چین اگلے ایک عشرے کے دوران شمسی توانائی اور ہوا سے پیدا کی جانے والے بجلی کی مد میں مزید بہت زیادہ سرمایہ کاری کرے گا اور ان ماحول دوست ذرائع سے پیدا کردہ بجلی کا حجم 1200 گیگا واٹ تک بڑھا دیا جائے گا۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے خطاب میں کہا کہ بھارت بھی اپنے ہاں صاف توانائی کے ذرائع کی ترویج کے لیے کوشاں ہے اور نئی دہلی حکومت مستقبل میں کاربن گیسوں کے اخراج میں اس حد تک کمی کا تہیہ کیے ہوئے ہے، جو پیرس کے عالمی ماحولیاتی معاہدے میں طے کی گئی تھی۔
جرمنی کی طرف سے مزید امداد
جرمنی کا شمار مغربی ترقی یافتہ ممالک میں سے ان ریاستوں میں ہوتا ہے، جو اپنے ہاں کاربن گیسوں کے اخراج میں مزید کمی اور ہوا، پانی اور شمسی توانائی سے بجلی کے اور زیادہ حصول کے لیے مسلسل کوشاں ہیں۔
دنیا بچانی ہے تو درخت لگانا ہوں گے، محققین
سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کی ایک ذمےد اری یہ بھی ہے کہ وہ تحفظ ماحول کے لیے غریب ممالک کی مزید مدد کریں۔ میرکل نے اس مد میں غریب اور ترقی پذیر ریاستوں کے لیے جرمنی کی طرف سے تقریباﹰ پانچ سو ملین یورو کی اضافی امدادی رقوم کی فراہمی کا اعلان بھی کیا۔
م م / ا ا (اے ایف پی، روئٹرز)