عالمی وبا، مستقبل کیا ہو گا؟
21 اکتوبر 2020یوں سمجھیے کہ اس وقت جون 2021 ء ہے اور دنیا میں عالمی وبا کو ڈیڑھ برس ہو چکا ہے۔ وائرس تاہم اب بھی پھیل رہا ہے۔ لاک ڈاؤنز اب ایک عام سی بات بن چکے ہیں۔ ایک ویکسین موجود ہے، جو چھ ماہ کے لیے آپ کو اس وائرس سے تحفظ دے سکتی ہے۔ مگر بین الاقوامی سطح پر اس کی تقسیم سست ہے۔ اب تک کئی سو ملین افراد اس وبا سے متاثر ہو چکے ہیں اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں بھی نمایاں اضافہ ہو چکا ہے۔
بھارت میں جڑواں بچوں کا نام ’کورونا‘ اور ’کووڈ‘
کووِڈ انیس کی تشخیص، سونگھنے والے کتوں سے
یہ بیان کردہ صورت حال محققین کی نظر میں ہے۔ ماہرین وائرس کورونا کی وبا کے اثرات سے مختصر اور طویل دورانیے سے متعلق پیش گوئیاں کر رہے ہیں۔ مختلف ماہرین کی پیش گوئیاں اور اندازے مختلف ہیں، مگر دو باتوں پر سب کا اتفاق ہے۔ ایک یہ کہ کورونا وائرس اب یہیں ہے اور دوسرا مستقبل کے بارے میں کوئی بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی۔ یعنی فی الحال یہ تک یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ آیا کورونا وائرس کا شکار ہو جانے والے اس وائرس سے امیون ہوتے ہیں یا نہیں۔ یا کیا موسمی حالات اس وائرس کے پھیلاؤ میں کوئی کردار ادا کرتے ہیں یا نہیں؟ اور یہ بھی کہ افراد یا حکومتوں کے رویے اور فیصلے کیا کچھ تبدیل کر سکتے ہیں؟
لندن اسکول اف ہائجین اینڈ ٹروپیکل میڈیسن کے متعدی بیماری سے متعلق ماہر روزالنڈ ایگو کے مطابق، ’’بہت سی چیزیں واضح ہو رہی ہیں اور بہت سی چیزیں غیرواضح ہیں۔ ہمیں بالکل نہیں پتا کہ کیا کچھ ہونے والا ہے۔‘‘
یونیورسٹی آف ہانگ کانگ کے بیماریوں سے متعلق ماہر جوزیف وو کہتے ہیں ،’’مستقبل کا دارومدار اس بات پر ہو گا کہ ہم سماجی رابطوں میں کتنی تیزی لاتے ہیں اور ایسے میں کیسی احتیاطی تدابیر کرتے ہیں۔‘‘
متعدد ممالک میں کامیاب لاک ڈاؤن کے عمدہ نتائج نکلتے ہیں جو واضح کرتے ہیں کہ سماجی رابطوں میں اگر رویوں پر توجہ دی جائے، تو اس وبا کا پھیلاؤ کم کیا جا سکتا ہے۔ مگر ظاہر ہے ضوابط پر سبھی لوگ عمل نہیں کرتے۔
آج 21 اکتوبر 2020 تک دنیا بھر میں اکتالیس ملین افراد اس وبا سے متاثر ہو چکے ہیں جب کہ ہلاک شدگان کی تعداد بھی گیارہ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔
دوسری جانب یورپ میں اس وبا کی دوسری لہر دیکھی جا رہی ہے اور ایک مرتبہ پھر کئی ممالک نے اپنے اپنے ہاں نئی پابندیاں نافذ کی ہیں۔ فرانس اور بیلجیم میں تو رات کے وقت کچھ دیر کے لیے کرفیو تک لگایا جا رہا ہے۔ اسی طرح جرمنی میں بھی شدید متاثرہ علاقوں کو لاک کیا جا رہا ہے۔