'عامر خان کے اشتہار سے ہندوؤں کے جذبات مجروح ہو رہے ہیں'
22 اکتوبر 2021بھارت کی سخت گیر ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رہنما نے بالی وڈ کے معروف اداکار عامر خان کے اس اشتہار پر سخت اعتراض کیا ہے، جس میں ہندوؤں کے تہوار دیوالی کے موقع پر وہ لوگوں سے سڑکوں پر پٹاخے نہ پھوڑنے کی گزارش کر رہے ہیں۔ بی جے پی رہنما کا دعوی ہے کہ اس اشتہار سے ہندو برادری بے چینی محسوس کر رہی ہے۔
چند روز قبل ہی کی بات ہے ایک اور بی جے پی رہنما نے دیوالی سے متعلق کپڑا بنانے والی ایک کمپنی 'فیب انڈیا' کے اس اشتہار پر اعتراض کیا تھا، جس میں دیوالی کے جشن کے موقع پر نئے کلیکشن کے لیے اردو الفاظ استعمال کیا گيا تھا۔ اس اعتراض کے بعد کمپنی نے اپنا اشتہار واپس لے لیا ہے۔
عامر خان کے اشتہار پر تنازعہ
اداکار عامر خان کے جس نئے اشتہار پر اعتراض ہے اسے ٹائر بنانے والی ایک بھارتی کمپنی سیئٹ (Ceat) نے جاری کیا ہے۔ بھارت میں ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلیاں ایک بڑا مسئلہ اور دیوالی کے موقع پر پٹاخے پھوڑنے سے خاص طور پر شہروں میں فضائی آلودگی میں زبردست اضافہ ہو جاتا ہے۔ کمپنی نے آلودگی کی روک تھام کے لیے اپنے اشتہار میں عامر خان کو استعمال کیا ہے۔
عامر خان اس اشتہار میں لوگوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ گلی کوچوں اور راستوں میں پٹاخے داغنے سے گریز کریں۔ لیکن جنوبی ریاست کرناٹک کے رکن پارلیمان اور بی جے پی رہنما اننت کمار ہیگڑے کو اس پر اعتراض ہے۔ اس لیے انہوں نے کمپنی کے مالک اننت وردھان گوینکا کو خط لکھ کر کہا ہے کہ اس سے، "ہندوؤں میں بے چینی پھیل رہی ہے۔"
اپنے مکتوب میں بی جے پی رہنما نے لکھا، "آپ عام لوگوں کو درپیش مسائل کے تئیں کافی حساس ہیں اور چونکہ آپ کا تعلق ہندو برادری سے بھی ہے، اس لیے مجھے یقین ہے کہ آپ صدیوں سے ہندوؤں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کو محسوس کر سکتے ہیں۔"
وہ مزید کہتے ہیں، "ہندو مخالف اداکاروں کا ایک گروپ ہمیشہ ہندوؤں کے جذبات کو مجروح کرتا ہے اور وہ کبھی اپنی برادری کے غلط کاموں کو بے نقاب کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔" اس لیے، "میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ اس واقعے کا نوٹس لیں، جس نے ہندوؤں میں بے چینی پیدا کر دی ہے۔"
نماز اور اذان کو محدود کرنے کا مطالبہ
بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمان نے اپنے مکتوب میں لکھا ہے، "آپ کی کمپنی کا حالیہ اشتہار، جس میں عامر خان لوگوں کو سڑکوں پر پٹاخے نہ پھوڑنے کا مشورہ دے رہے ہیں، بہت اچھا پیغام ہے۔ عوامی مسائل کے تئیں آپ کی فکر کی تعریف ہونی چاہیے۔ اسی سلسلے میں، میں آپ سے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ سڑکوں پر لوگوں کو درپیش ایک اور مسئلے کو حل کروا دیں، اور وہ یہ ہے کہ جمعے کے روز یا بعض دیگر مسلم تہواروں کے موقع پر نماز کے نام پر مسلمان سڑکوں کو بلاک کرنا بند کر دیں۔"
اپنے خط میں وہ پٹاخوں کے نوائز پلوشن (صوتی آلودگی) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر روز مساجد کے میناروں پر رکھے، "لاؤڈ اسپیکر سے اس وقت بہت زور زور کی آواز نکلتی ہے جب اذان دی جاتی ہے اور یہ آواز جائز حد سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔"
وہ لکھتے ہیں۔ "جمعے کے دن تو یہ اور بھی طویل ہوتی ہے۔ اس سے آرام کے متمنّی مختلف بیماریوں میں مبتلا افراد، مختلف اداروں میں کام کرنے والے لوگ اور کلاس میں پڑھانے والے اساتذہ کو بڑی تکلیف پہنچ رہی ہے۔ درحقیقت، متاثرین کی یہ فہرست بہت طویل ہے اور یہاں صرف چند کا ذکر کیا گیا ہے۔"
دیوالی یا جشن رواج پر ہنگامہ
چند دن پہلے ہی کی بات ہے فرنیچر اور روایتی ملبوسات تیار کرنے والی ایک کمپنی 'فیب انڈیا' نے اپنے نئے کپڑوں کے لیے جو اشتہار استعمال کیا تھا اس میں فیسٹیو سیزن کے لیے بطور استعارہ اردو کے الفاظ "جشن رواج" کا استعمال کیا گيا تھا۔ بی جے پی نے اس پر بھی سخت اعتراض کیا اور بعد میں کمپنی نے معذرت کے ساتھ اپنا اشتہار واپس لیا ہے۔
بنگلور سے تعلق رکھنے والے نوجوان رکن پارلیمان تیجسوی سوریا، جو بھارتیہ جنتا پارٹی کی نوجوان ونگ کے صدر بھی ہیں، نے فیب انڈيا کے اس اشتہار کو ہندوؤں کے جذبات مجروح کرنے والا بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ کمپنی اپنی سیل کے لیے دیوالی کو استعمال کر رہی ہے اور ہندوؤں کے اتنے بڑے تہوار کو جشن رواج کیسے کہا جا سکتا ہے۔
حالانکہ کمپنی نے اس بات کی وضاحت بھی کی تھی اور کہا تھا کہ کمپنی کا اشتہار محبت اور روشنی کے تہوار کے استقبال کے لیے ہے اور اس کا نیا کلیکشن بھارتی ثقافت کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہے۔ تاہم سوشل میڈیا پر ہندو گروپوں نے کمپنی کے بائیکاٹ کی مہم چلا دی جس کے بعد کمپنی نے اشتہار ہٹا دیا۔
بھارت میں سخت گیر ہندو تنظیمیں اکثر یہ کہتی ہیں کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے اور یہ ان کی تہذیب و ثقافت کی عکاس ہے لہذا اسے ہندوؤں کی رسومات اور ان کی تہذیب کو بیان کرنے کے لیے نہیں استعمال کرنا چاہیے۔ تاہم ایک طبقے کا یہ بھی کہنا ہے کہ لفظ ہندو خود اصل میں عربی اور فارسی سے ماخوذ ہے اور اردو لفظ ہے تو کیا ہندو اس لفظ کو ترک کر سکتے ہیں؟