1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستعراق

عراق میں اب امن ہے، صدر عبدالطیف رشید

27 فروری 2023

عراقی صدر کا دعویٰ ہے کہ اکثر عراقی 2003ء میں جنگ کے آغاز کو ضروری گردانتے اور امریکہ کے "عراق کو بچانے" کے اقدام کو سراہتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4O2Qp
Iraks neuer Präsident Abdul Latif Rashid
تصویر: IRAQI PARLIAMENT MEDIA OFFICE via REUTERS

آج سے تقریباﹰ 20 سال قبل 2003ء میں امریکی قیادت میں غیر ملکی عسکری اتحاد نے عراق میں ایک جنگ کا آغاز اور سابق آمر صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ کیا تھا۔ بیس سال بعد موجودہ عراقی صدر عبدالطیف رشید آج دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ عراق میں اب امن اور جمہوریت ہے اور وہاں کی ریاست معاشی زندگی کی تعمیر نو کے ساتھ ساتھ ایسی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے جو عراق سمیت تمام خطے کی خدمت کرے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے خبر رساں ادارے دی ایسوسی ایٹڈ پریس کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کیا، جس میں انہوں نے بتایا کہ پچھلی دو دہائیوں میں مشکلات سے نمٹنے کے بعد عراق اب عوام کی روزمرہ زندگی کو بہتر بنانے پر توجہ دینے کے لیے تیار ہے۔

جن مشکلات کا عبدالطیف رشید ذکر کر رہے تھے ان میں غیر ملکی افواج کے خلاف برسوں مزاحمت، شیعہ اور سنی گروپوں کے مابین جھڑپیں اور دہشت گرد تنظیم 'اسلامک اسٹیٹ‘ کی جانب سے حملے شامل ہیں۔

صدر عبدالطیف رشید کا کہنا ہے کہ اب تمام ملک میں امن و امان ہے اور وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ عراق کو اب بھی "ایک جنگ کے میدان" کے طور پر دکھانے کے بجائے میڈیا وہاں قائم امن کی منظر کشی کرے۔

Sturz Saddam-Statue
آج سے تقریباﹰ 20 سال قبل 2003ء میں امریکی قیادت میں غیر ملکی عسکری اتحاد نے عراق میں ایک جنگ کا آغاز اور سابق آمر صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ کیا تھا۔تصویر: Jerome Delay/AP/picture alliance

گو کہ عراق میں بڑی جنگ اب ختم ہو چکی ہے لیکن حال ہی میں وہاں پرتشدد واقعات کا سلسلہ پھر سے شروع ہوا ہے۔ ان واقعات میں پچھلے سال اکتوبر میں صدارتی انتخاب کے لیے ووٹنگ سے قبل عراقی پارلیمان پر راکٹوں سے حملہ بھی شامل ہے۔

اس انتخاب میں بالآخر ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد عبدالطیف رشید عراق کے نئے صدر منتخب ہوئے تھے اور پھر انہوں نے محمد شیاع السوڈانی کو وزیر اعظم نامزد کیا تھا۔ بعد ازاں محمد شیاع السوڈانی نے ایران کی حمایتی جماعتوں کی پشت پناہی سے نئی حکومت قائم کی تھی اور ساتھ ہی امن و امان اور پبلک سروسز میں بہتری کے وعدے بھی کیے تھے۔

عراق تیل کی دولت سے  مالا مال ہے لیکن پھر بھی آج وہاں عوام کو بنیادی سہولیات کی کمی کا سامنا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر گھنٹوں بجلی کی بندش کی وجہ سے لوگوں کو جینیریٹرز پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور وعدوں کے باوجود بغداد میٹرو سمیت ٹرانسپورٹ کے متعدد مختلف منصوبے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پائے ہیں۔

اس کی وجہ صدر عبدالطیف رشید تنازعات، دہشت گردی اور برسوں چلنے والی جنگ کے باعث ہونے والے نقصان کو قرار دیتے ہیں۔

دوسری جانب حکومت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ بجلی کی ترسیل میں خرابی کی ایک وجہ بدعنوانی بھی ہے۔ عراق میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر قائم اقتدار کی تقسیم کے ایک ایسے نظام کا نتیجہ ہے، جو سیاسی اشرافیہ کو پشت پناہی کے نیٹ ورکس کے استعمال اور طاقت کو مستحکم کرنے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔

'بیشتر عراقی مانتے ہیں عراق جنگ ضروری تھی'

 دی ایسوسی ایٹڈ پریس کو دیے گئے انٹرویو میں صدر عبدالطیف رشید نے یہ بھی دعوی کیا کہ صدام حسین کی بربریت کی وجہ سے اکثر عراقی مانتے ہیں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا 2003ء میں عراق میں جنگ کا آغاز ضروری تھا۔ انہوں نے اس حوالے سے مزید کہا کہ ان کا ماننا ہے بیشتر عراقی، بشمول کرد، سنی، مسیحی اور شیعہ، صدام حسین کے خلاف تھے اور وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے "عراق کو بچانے" کے اقدام کو سراہتے ہیں۔

لیکن ساتھ ہی صدر رشید نے یہ بھی واضح کیا اس سلسلے "کچھ چیزیں امید کے برعکس بھی ہوئیں۔ انہوں نے کہا، "کسی نے داعش کے بننے اور گاڑیوں میں بم دھماکوں کی امید نہیں کی تھی۔ اس (سب کو) کو ابتدا سے ہی کنٹرول کرنا چاہیے تھا اور اس پر شروعات سے ہی منصوبہ بندی کرنی چاہیے تھی۔"

عبدالطیف رشید نے کہا کہ ان کی رائے میں عراق جنگ کے آغاز کے وقت ایک "خام خیالی یہ بھی تھی کہ صدام کے جانے کے بعد عراق جنت بن جائے گا۔ گو کہ حقیقت اس سے کہیں زیادہ دشوار ثابت ہوئی لیکن اس نے عراق کا جمہوریت کا عزم کمزور نہیں کیا ہے۔"

عراقی صدر کہتے ہیں ان کا ماننا ہے کہ تنازعات کے باوجود آزادی اور جمہوریت آمریت سے بہتر ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ عراق میں ابھی تک تنازعات کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہوا ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ عراقی عوام، بالخصوص نوجوان، صبر سے کام لیں اور آنے والے کل پر یقین رکھیں۔ ان کا کہنا تھا، "ہمارے پاس ساتھ رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے اور ہمیں اپنی اقدار کی نمائندگی کے لیے جمہوری انتخابات ہونے دینے چاہییں۔"

بین الاقوامی تعلقات 

بطور عراقی صدر عبدالطیف رشید کی ذمے داریوں میں عراق کے سیاسی طاقت کے مراکز کے مابین توازن برقرار رکھنے میں معاونت فراہم کرنا اور موجودہ عراقی حکومت کے دو اہم حمایتی امریکہ اور ایران، جو اکثر ایک دوسرے کی مخالفت کرتے ہیں، کے ساتھ تعلقات کو استوار رکھنے میں مدد فراہم کرنا شامل ہے۔

بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں مزید بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایران، شام، کویت، سعودی عرب، ترکی اور اردن سمیت پڑوسی ممالک سے تعلقات بہتر کرنے سے عراق زیادہ طاقتور بنے گا۔ اس حوالے سے انہوں نے ہفتے کو عراق کا مشرق وسطی کے سینیئر عرب قانون سازوں کے اجلاس کی میزبانی کا فخریہ ذکر بھی کیا اور سعودی عرب اور ایران کے مابین تعطل کا شکار مذاکرات میں عراق کا بطور ثالث کردار ادا کرتے رہنے کی آمادگی کا بھی اظہار کیا۔

'اقتصادی ترقی کے روشن امکانات'

عراقی صدر نے بد عنوانی پر سخت رویہ اختیار کرنے کا عہد بھی کیا۔ انہوں نے کہا، "میں مانتا ہوں کہ ماضی اور حال دونوں میں ہمیں بدعنوانی کے مسائل کا سامنا ہے لیکن اس سے نمٹنے کے بارے میں حکومت بہت سنجیدہ ہے۔" ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور عراق کا مرکزی بینک رقم کی بیرون ملک منتقلی سے متعلق اقدامات بھی کر رہے ہیں تا کہ منی لانڈرنگ کو روکا جا سکے۔ 

صدر عبدالطیف رشید نے کہا کے اقتصادی طور پر عراقی حکومت کی توجہ سالوں پر محیط تنازعے سے تباہ حال صنعت و زراعت کی تعمیر نو پر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت قدرتی گیس کے ذخائر پر کام کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہے تا کہ اسے گیس کی فراہمی کے لیے پڑوسی ممالک، خصوصاﹰ ایران، پر انحصار نہ کرنا پڑے۔

ان کا کہنا تھا کہ عراقی دینار کی قدر میں کمی اور حالیہ مہینوں میں مہنگائی میں اضافے کے باوجود عراق کی اقتصادی ترقی کے روشن امکانات ہیں کیونکہ وہاں تیل کی پیداوار اچھی ہے اور بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتوں میں بہت اضافہ ہوا ہے۔

صدر عبدالطیف رشید نے کہا، "عراق اقتصادی طور پر بہت مستحکم  ہے اور ممکنہ طور پر دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے، جن کو بجٹ میں خسارے کا سامنا نہیں ہے۔"

  م ا / ع ا ( اے پی)