عراق میں سلامتی سے جڑے اندیشوں میں شدت
24 اپریل 2010ان حملوں میں شدت پسند شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر کے صدر دفتر اور ان کے حامیوں کو نشانہ بنایا گیا، جن میں دو سو افراد زخمی بھی ہوئے۔
ادھر واشنگٹن میں امریکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ اس نوعیت کے واقعات کا امریکی افواج کے رواں سال اگست میں عراق سے واپسی کے منصوبوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ عراق میں اس وقت 95 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں، جن میں سے 45 ہزار کو اگست کے اواخر میں جبکہ بقیہ کو اگلے سال واپس امریکہ بلا لیا جائے گا۔
عراقی دارالحکومت بغداد میں تازہ حملے عین ایسے وقت کئے گئے جبکہ حکومت کی جانب سے القاعدہ کے پسپا ہوجانے کے دعوے کئے جا رہے ہیں اور سیاسی جماعتیں نئی حکومت کی تشکیل کے مشکل مرحلے سے گذر رہی ہیں۔
عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کے بقول جمہ کو کئے گئے بم دھماکے عراقی اور امریکی افواج کی ایک کارروائی میں القاعدہ کے دو کمانڈروں کی ہلاکت کا ردعمل ہیں۔ اتوار کی اس کارروائی میں القاعدہ کے کمانڈروں ابو عمر البغدادی اور ابو ایوب المصری کی ہلاکت کے دعوے کئے جا رہے ہیں۔
تازہ حملوں کی بظاہر نشانہ مقتدیٰ الصدر کی حامی مہدی ملیشیا نے مساجد کے باہر حظاظتی اقدامات کے تحت ذمہ داریاں خود سنبھال لی ہیں۔ ایران مقیم الصدر کی جانب سے عراق متعینہ امریکی افواج پر حملوں میں ملوث مہدی ملیشیا سے دوبارہ ’ایکشن‘ میں آنے کا کہا گیا ہے۔
مقتدیٰ الصدر کی جماعت عراق پر امریکی حملے اور صدام دور کے خاتمے کے بعد حال ہی میں منعقدہ دوسرے پارلیمانی انتخابات میں تیسرے نمبر پر رہی ہے۔ ان انتخابات میں سرفہرست سابق وزیر اعظم ایاد علاوی اور دوسرے نمبر پر آنے والے موجودہ وزیر اعظم نوری المالکی کے لئے نئی حکومت کی تشکیل کے سلسلے میں مقتدیٰ الصدر کی حمایت اہمیت کی حامل ہے۔
دفاعی امور کے ماہرین البتہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ القاعدہ کی درمیانی درجے کی قیادت اب بھی عراق میں سرگرم ہے اور اس کے خلاف کارروائیاں کئے بغیر امن و امان ممکن نہیں۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : امجد علی