عراق: نرغے میں آئے ایزدی ہیں کون؟
8 اگست 2014اس دہشت گرد تنظیم نے گزشتہ چند برسوں کے دوران متعدد مرتبہ اپنا نام تبدیل کیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک دولتِ اسلامیہ عراق و شام (داعش) کے نام سے سرگرم یہ تنظیم اُنتیس جون سے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے نئے نام سے سرگرمِ عمل ہے۔ اس کے جنگجو ایزدی برادری کے ارکان کو بے رحمی کے ساتھ قتل کر رہے ہیں، اُن کے مویشیوں کو ہلاک کر رہے ہیں اور اُن کی عبادت گاہوں کو تباہ و برباد کر رہے ہیں۔
ایزدی اقلیت پر مشکل وقت
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مطابق ایزدی برادری کے ارکان کی بڑی تعداد کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا ہے۔ ایزدیوں میں سے جو بھی ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جنگجوؤں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں، اُنہیں اسلام قبول کرنے کے لیے کہا جاتا ہے اور انکار کی صورت میں موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔
سلامتی کونسل کی ایک ترجمان کے مطابق پہلے ہی ہلّے میں پانچ سو ایزدیوں کو ہلاک کر دیا گیا جبکہ تقریباً دو لاکھ پناہ کی تلاش میں گھر بار چھوڑ چکے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ تقریباً تیس ہزار خاندان سِنجار کے قریب پہاڑیوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں، جہاں اُن کے پاس کھانے پینے کی اَشیاء نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اقوام متحدہ کے بچوں کی بہبود کے ادارے یونیسیف کے مطابق ان میں پچیس ہزار بچے بھی شامل ہیں، جن میں سے تقریباً چالیس بچے خوراک کی قلّت کی وجہ سے موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔
ایزدی ہیں کون؟
ایزدی نسلی اعتبار سے کُرد ہیں اور کُرد زبان کے تین بڑی بولیوں میں سے ایک کُرمانجی بولتے ہیں۔ ایزدی اقلیت کے ارکان شام، ایران، عراق اور ترکی کے کُرد علاقوں میں آباد ہیں۔ دنیا بھر میں اس اقلیت کے ارکان کی مجموعی تعداد تقریباً آٹھ لاکھ بتائی جاتی ہے، جن کی بڑی تعداد عراق میں آباد ہے۔ عراق میں ایزدی آبادی شہر موصل کے آس پاس دو علاقوں میں موجود ہے۔ عراق کے ساڑھے پانچ لاکھ ایزدیوں کا مذہبی مرکز شمالی عراق کی للیش وادی ہے، جہاں ایزدیوں کی مقدس ترین شخصیت شیخ عدی بن مسافر کا مزار بھی واقع ہے۔
ایزدیوں کی ایک بڑی تعداد مغربی یورپ میں بھی آباد ہے۔ ان کی سب سے بڑی تعداد جرمنی میں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق جرمنی میں ان کی تعداد 45 تا 60 ہزار ہے۔
ایزدی کمیونٹی کی پیچیدہ تاریخ
ایزدی مذہب کے بارے میں مختلف طرح کے نظریات پائے جاتے ہیں۔ خود ایزدی اپنے آپ کو ایک قدیم ایرانی فرقے کا تسلسل قرار دیتے ہیں۔ مذہبی محققین کا کہنا یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس اقلیت نے مختلف مذاہب سے استفادہ کرتے ہوئے اُن کے عقائد کو اپنے عقائد میں شامل کیا ہے۔ اس لیے جہاں ایک طرف اس میں مسیحی عقیدے کی مختلف جھلکیاں ملتی ہیں، وہاں بہت سی چیزوں میں اسلام کی بی جھلک نظر آتی ہے۔ یہودیت، مسیحیت اور اسلام کی طرح ایزدی بھی وحدانیت پر یقین رکھتے ہیں۔ ایزدی خدا کے وجود کے علاوہ مزید کسی بھی طرح کی قوتوں مثلاً شیطان کو نہیں مانتے۔
تینوں بڑے مذاہب کے برعکس ایزدیوں کی کوئی مقدس کتاب نہیں ہے بلکہ اُن کی روایات زیادہ تر زبانی طور پر اُن تک پہنچی ہیں۔ عثمانی دور میں ایزدیوں کو ’شیطان کی پوجا کرنے والے‘ سمجھا جاتا تھا۔ اُنیس ویں صدی کے اواخر میں عراق میں کئی بار مسیحی اور ایزدی آبادی کا قتلِ عام کیا گیا۔
’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جنگجو بھی ایزدیوں کو کسی باقاعدہ مذہب کا حصہ نہیں سمجھتے اور یہ موقف رکھتے ہیں کہ اُنہیں یا تو زبردستی دائرہء اسلام میں داخل کیا جانا چاہیے یا پھر وہ واجب القتل ہیں۔