عراق: ہلاکتیں دو درجن سے زائد ہو گئیں
7 دسمبر 2019عراقی دارالحکومت بغداد میں حکومت مخالف مظاہرین پر نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ اور چاقو کے حملوں میں کم از کم پچیس ہلاک اور ایک سو تیس سے زائد زخمی ہوئے۔ ہلاک شدگان میں تین پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ ایک فوٹو جرنلسٹ احمد مہنا بھی حملہ آوروں کی گولیاں کا نشانہ بنا۔
ابھی تک حملہ آوروں کے حوالے سے کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی۔ یہ حملے بغداد میں مظاہروں کے مرکزی مقام تحریر اسکوائر اور الخیلانی چوک میں کیے گئے۔ عینی شاہدین کے مطابق حملہ آور چار موٹر کاروں پر سوار تھے۔ وہ بلا اشتعال مظاہرین کی جانب خود کار ہتھیاروں سے فائرنگ کرتے رہے۔
یہ حملے جمعہ اور ہفتہ سات دسمبر کی درمیانی شب میں کیے گئے۔ ان حملوں کے بعد عراقی فوج کے دستوں کو تحریر اسکوائر اور الخیلانی چوک کے ارد گرد تعینات کر دیا گیا ہے۔ فوجیوں کی تعیناتی کی تصدیق بغداد آپریشنز کے نگران جنرل قیس الحمودی نے بھی کر دی ہے۔
مظاہرین پر کیے گئے حملوں کے بعد ہفتے کے روز عراقی مظاہرین بغداد کے علاوہ کئی دوسرے شہروں میں احتجاج میں شریک رہے۔ ان شہروں میں ناصریہ اور نجف خاص طور پر اہم ہیں۔ عراقی شہروں میں جاری احتجاجی سلسلے میں شریک مظاہرین کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔
حکومت مخالف مظاہروں کو سخت گیر مذہبی رہنما مقتدیٰ الصدر کی حمایت بھی حاصل ہے اور ان کی حامی نیم عسکری تنظیم 'سرایہ السلام‘ یا امن بریگیڈز کے کارکن بھی مظاہروں کا حصہ بن چکے ہیں۔ بظاہر یہ لوگ مظاہروں میں بغیر اسلحے کے شریک ہو رہے ہیں۔ سرایہ السلام کے مطابق بغداد میں کیے گئے حملوں میں اُس کے کارکن بھی مارے گئے ہیں۔
عراق کی سب سے اہم مذہبی شخصیت آیت اللہ العظمیٰ علی سیستانی نے ہلاکتوں پر افسوس اور حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اراکین پارلیمان کو ہدایت کی ہے کہ وہ بغیر کسی بیرونی دباؤ کے فوری طور پر ملک کے نئے وزیراعظم کا انتخاب کریں۔
دوسری جانب ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ایک اعلیٰ ایرانی کمانڈر نے نئی عراقی حکومت کی تشکیل کے تناظر میں رواں ہفتے کے دوران عراق کا دورہ بھی کیا ہے۔ عراق میں پھیلی سیاسی بے چینی کے دوران نجف میں ایرانی قونصل خانے پر بھی مظاہرین نے چڑھائی کرتے ہوئے اسے آگ لگا دی تھی۔
ع ح ⁄ ا ب ا (ڈی پی اے، اے پی)