1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عرب اسد کو گلے لگا رہے ہیں، کیا عام شامیوں کا بھلا ہو گا؟

23 اپریل 2023

شامی حکومت کے اپنے پڑوسی عرب ممالک سے تعلقات دوبارہ بحال ہو رہے ہیں۔ دوسری جانب اس ملک کے نوے فیصد عوام غربت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ کیا اس سے اُن کو مدد ملے گی؟

https://p.dw.com/p/4QBj4
Normalisierung in Syrien | Wandgemälde mit dem Bild des verstorbenen Abdel-Basset al-Sarout
تصویر: Omar HAJ KADOUR/AFP/Getty Images

شامی حزب اختلاف کے مذہبی مفادات کی نمائندگی کے لیے سن 2014 کے دوران استنبول میں قائم کردہ 'شامی اسلامی کونسل‘ کے ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے، ''شام کو تباہ کرنے والے اور اس کے لوگوں کو ختم کرنے والے مجرم گروہ سے صلح کرنے سے زہر کھا کر مرنا ہزار گنا آسان ہے۔‘‘

اس میں کوئی شک نہیں کہ سن 2011 کے حکومت مخالف مظاہروں میں حصہ لینے والے بہت سے شامی باشندے بھی ایسا ہی محسوس کرتے ہیں، چاہے وہ مذہبی ہوں یا نہ ہوں۔

دوسری جانب اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اب کم از کم مشرق وسطیٰ میں اُس شامی حکومت کے ساتھ مفاہمت ہو رہی ہے، جس کی سربراہی آمر بشار الاسد کر رہے ہیں۔ مظاہرین پر وحشیانہ کریک ڈاؤن کے بعد، جو بالآخر خانہ جنگی کا باعث بنا، شام کی سن2011 میں علاقائی تعاون کی تنظیم عرب لیگ سے رکنیت معطل کر دی گئی تھی اور کئی عرب ممالک نے تعلقات منقطع کر لیے تھے۔

تعلقات اور گرمجوشی میں اضافہ

لیکن گزشتہ پانچ برسوں میں آہستہ آہستہ تبدیلی آ رہی ہے جبکہ متحدہ عرب امارات اور اردن جیسے ممالک خاموشی سے دوبارہ رابطہ قائم کر رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں اس عمل میں مزید تیزی آئی ہے۔ کچھ مبصرین کے مطابق اگلے سربراہی اجلاس تک شام کو دوبارہ عرب لیگ میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ مبصرین کے مطابق اگر ایسا نہیں بھی ہوتا تو بھی شام کو ایک ''مبصر‘‘ ریاست کے طور پر واپس آنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔

مشرقی شام میں متحارب غیرملکی حمایت یافتہ جنگجو کون ہیں؟

اس کی نشاندہی شام کی حالیہ سفارتی سرگرمیوں سے بھی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر شام کے وزیر خارجہ نے رواں ماہ مصر میں اپنے ہم منصب سے ملاقات کی، جو ایک دہائی سے زائد عرصے میں ان کی پہلی ملاقات تھی۔ اسی ماہ تیونس نے اعلان کیا کہ وہ سن 2012 میں تعلقات منقطع کرنے کے بعد اب دمشق میں ایک نیا سفیر مقرر کرے گا۔

اور اسی ہفتے شام کے وزیر خارجہ اور نائب وزیر اعظم غیر اعلانیہ دورے پر سعودی عرب پہنچے، جو سن 2011 کے بعد پہلا دورہ ہے۔

کیا شام کی معیشت بہتر ہو گی؟

ایک اندازے کے مطابق اب 90 فیصد شامی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں، مقامی کرنسی کی قدر میں 75 فیصد تک کمی ہو چکی ہے جبکہ افراط زر 55 فیصد پر جا رہی ہے۔

بجلی اور پانی کی مسلسل بندش رہتی ہے اور داخلی سطح پر 6.8 ملین بے گھر افراد کے ساتھ شام دنیا بھر میں سرفہرست ہے۔ لیکن کیا شام کے پڑوسی اس میں بہتری کے لیے مدد کر سکتے ہیں؟

 داخلی سطح پر 6.8 ملین بے گھر افراد کے ساتھ شام دنیا بھر میں سرفہرست ہے
داخلی سطح پر 6.8 ملین بے گھر افراد کے ساتھ شام دنیا بھر میں سرفہرست ہےتصویر: Ahmad al-ATRASH/AFP/Getty Images

ماہرین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شام اور اس کے پڑوسیوں کے درمیان گرمجوشی کے تعلقات سے فوری طور پر کوئی فائدہ حاصل کرنا ناممکن نظر آتا ہے کیونکہ یہ عمل درحقیقت عام شامیوں کے بارے میں نہیں ہے۔

یورپی کونسل برائے خارجہ تعلقات میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے پروگرام کے ڈائریکٹر جولین برنیز ڈیسی کہتے ہیں، ''ان اقدامات کے پیچھے یقینی طور پر شامیوں کی حالت زار یا ملک کے انتہائی مایوس کن حالات کو بہتر بنانے کی کوئی متحد علاقائی خواہش کارفرما نہیں ہے۔‘‘

شام میں زلزلہ زدگان کی امداد پہنچنے میں تاخیر کیوں؟

اس تناظر میں وہ مزید کہتے ہیں، ''یہ سب سے پہلے علاقائی آرڈر اور اس تنازعے کی وجہ سے خطے پر بیرونی اثرات کے بارے میں ہے، پناہ گزینوں اور نشہ آور دوائی کیپٹاگون کے بارے میں ہے۔‘‘

سمجھا جاتا ہے کہ کیپٹاگون گولیوں کی بڑھتی ہوئی تجارت کے پیچھے شامی حکومت کا ہاتھ ہے۔  یہ ایک انتہائی نشہ آور ایمفیٹامائن ہے، جس کی اس خطے میں مالیت تقریباً 50 بلین ڈالر کے قریب بنتی ہے۔

تعلقات کو معمول پر لانے کی کچھ دیگر وجوہات بھی ہیں۔ عرب ریاستیں شام میں ایران کے اثر و رسوخ کو کم کرنا چاہیں گی اور ساتھ ہی ایسے حالات قائم کرنا چاہیں گی، جو شامی پناہ گزینوں کی واپسی کی اجازت دیں جبکہ بدلے میں شام کو سیاسی شناخت اور تعمیر نو کے لیے فنڈز ملیں گے۔ شام کے پڑوسیوں کو بھی خدشہ ہے کہ ملک کے اندر منفی اقتصادی حالات خطے میں مزید عدم استحکام کا باعث بن سکتے ہیں۔

کچھ اچھا ہونے کا امکان

تاہم اس تمام تر پیش رفت کے عام شامیوں کے لیے کچھ فوائد بھی ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر حکومتی زیر کنٹرول علاقے کے ایک رہائشی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ تعلقات کی ممکنہ بحالی کے حوالے سے خوش ہیں، ''اس سے میرے لیے سفر کا راستہ کھل جائے گا۔ میں صرف ایک چیز کے بارے میں سوچتا ہوں کہ یہاں سے نکلنا کیسے ہے۔ یہاں کچھ بھی ٹھیک نہیں چل رہا اور ہجرت شامی فوج میں بھرتی ہونے سے بہتر ہو گی، جہاں مجھے قتل میں حصہ ڈالنے پر مجبور کیا جائے گا۔‘‘

برطانیہ میں قائم تھنک ٹینک چیتھم ہاؤس میں ایک ایسوسی ایٹ فیلو ذکی مہچی  بھی کہتے ہیں کہ لوگوں کی نقل و حرکت عام شامیوں کے لیے ممکنہ تبدیلیوں میں سے ایک ہو گی۔ ان کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''اس سے درحقیقت عام شامیوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر لوگ شام کے اندر اپنے اہل خانہ سے زیادہ آسانی سے مل سکیں گے، وہ اپنے ساتھ پیسہ لائیں گے اور اس سے مقامی معیشت کو بحال کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔‘‘

اسی طرح خلیجی ممالک سے آنے والوں کی تعداد میں اضافہ شام میں کچھ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کو بحال کرنے میں بھی مدد کر سکتا ہے۔

تاہم ذکی مہچی کے مطابق عرب ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی سے عام شامی شہریوں کے زندگیوں پر کوئی زیادہ مثبت اثر کم ہی پڑے گا۔ مہچی کا دلیل دیتے ہوئے کہنا تھا،''ایک آمرانہ حکومت کے ساتھ کوئی اچھی ڈیل نہیں ہو سکتی۔‘‘

ان کا عرب ممالک اور تیونس کا حوالہ دیتے ہوئے کہنا تھا، ''آپ خود سوچیں، دو آمرانہ حکومتوں کے مابین کیسے کوئی اچھی ڈیل ہو سکتی ہے؟‘‘

عمر البام، شام (ا ا / ع ت)