عزیر بلوچ پاکستانی فوج کی تحویل میں
12 اپریل 2017منگل کی رات پاکستانی فوج کے شعبہء تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے اس حوالے سے ایک ٹوئٹ میں لکھا، ’’ عزیر بلوچ کو پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت تحویل میں لے لیا گیا ہے۔‘‘ آصف غفور کی دوسری ٹوئٹ کے مطابق عزیر بلوچ کو غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کو سکیورٹی سے متعلق حساس معلومات فراہم کرنے کے جرم میں فوج نے اپنی تحویل میں لیاہے۔
لیاری گینگ وار کے مرکزی کردار اور کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے قریبی تعلقات ہیں۔ عزیر بلوچ اپنے مخالف گروپ کے ارکان، متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنان، ان کے حمایتی افراد اور پولیس افسران کو قتل کرنے کا اعتراف کرچکا ہے۔ عزیر بلوچ کو گزشتہ برس ایک چھاپے میں رینجرز نے کراچی کے مضافاتی علاقے سے گرفتار کر لیا تھا جس کے بعد عدالت نے اسے ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔ عزیر بلوچ کیس میں مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ میں عزیر بلوچ پر ایرانی خفیہ ایجنسی کے لیے کام کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا اور تجویز دی گئی تھی کہ عزیر بلوچ کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلانا چاہیے۔
پاکستان کے سوشل میڈیا پر عزیر بلوچ آج ٹاپ ٹرینڈنگ ہیش ٹیگ بن گیا ہے۔ اس حوالے سے ایم کیو ایم کے رہنما علی رضا عابدی نے ٹوئٹ میں لکھا،'' اگر عزیر بلوچ جاسوسی کے جرم میں ملوث ہے تو پاکستان پیپلز پارٹی اور ذولفقار مرزا کو بھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔‘‘
پاکستانی ٹی وی اینکر مبشر لقمان نے ٹوئٹر پر لکھا،'' عزیر بلوچ اپنی تحویل میں کئی اعلیٰ سیاست دانوں کے خلاف ثبوت فراہم کر سکتا ہے۔ ‘‘
واضح رہے کہ پاکستان کے کچھ میڈیا چینلز نے رپورٹ کیا ہے کہ کلبھوشن یادیو جس کے بارے میں پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ بھارتی خفیہ ایجنسی کا ایجنٹ ہے، عزیر بلوچ اس کے ساتھ رابطے میں تھا۔