1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ میں صلح کیوں نہیں ہو رہی؟

12 اگست 2024

پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ باہمی محاذ آرائی کی بھاری قیمت چکانے کے باوجود ابھی تک کسی نتیجہ خیز مفاہمت کے لیے آمادہ نظر نہیں آ رہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو ان دونوں فریقوں کو قریب آنے سے روک رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4jOK5
Kombo | Imran Kahn und Syed Asim Munir
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS//W.K. Yousufzai/W.K. Yousufzai/picture alliance

پاکستان میں کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جب تک پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جاری محاذ آرائی کا خاتمہ نہیں ہوتا تب تک ملک کو سیاسی استحکام نصیب نہیں ہو سکتا۔ وہ ساری امیدیں جو نئے انتخابات کے بعد ملکی استحکام کے لیے وابستہ کی گئی تھیں، وہ بتدریج دم توڑ چکی ہیں۔

پاکستان: عمران خان کا فوج کے ساتھ بات چیت پر آمادگی کا اشارہ

کیا پاکستان میں بنگلہ دیش جیسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں؟

انتخابی دھاندلی کے الزامات اور اس حوالے سے انصاف کے ایوانوں میں ہونے والی جنگ نے موجودہ حکومت کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ تجزیہ کار سلمان عابد کے بقول ملک میں یہ تاثر فروغ پا رہا ہے کہ موجودہ حکومت ملک کا معاشی بحران حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے اور انتشار کے اس ماحول میں سرمایہ کار ملک میں سرمایہ کاری کرنے پر تیار نہیں ہیں۔

کیا موجودہ حکومت پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ میں صلح نہیں ہونے دے رہی؟

سینیئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار حبیب اکرم سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ میں فاصلے ختم نہ ہونے کی ایک وجہ اس جھگڑے سے مستفید ہونے والی موجودہ سیاسی حکومت کا ڈر ہے کہ اگر ان کے مابین معاملات طے پا گئے تو ان کی چھٹی ہو جائے گی: ''اس لیے کسی بھی فریق کی طرف سے جب بھی مفاہمت کا کوئی اشارہ سامنے آتا ہے تو حکومت کی طرف سے عمران کے گھر پر حملہ یا ان کی گرفتاری کی طرح کا کوئی نہ کوئی ایسا اقدام سامنے آ جاتا ہے جس سے بیل منڈھے نہیں چڑھ پاتی۔اسی طرح بعض با اثر غیر سیاسی حلقوں میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اسٹیبلشمنٹ اور عمران کی صلح کے حق میں نہیں ہیں۔‘‘

شہباز شریف اور آصف علی زرداری
تجزیہ کار حبیب اکرم کے بقول پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو جوڑنے کا عمل بھی تو خود بخود نہیں ہوا تھا۔تصویر: picture alliance / Xinhua News Agency

ایک سوال کے جواب میں حبیب اکرم کا کہنا تھا، ''الیکشن کے دوران اور الیکشن کے بعد حکومت کو اسٹیبلشمنٹ سے بہت سپورٹ ملی ہے اور کئی بار تو ایسا لگتا تھا کہ الیکشن کمیشن بھی کسی کے اشارے پر ہی قانون کی تشریح پی ٹی آئی کے خلاف کرتا رہا ہے۔‘‘ حبیب اکرم کے بقول پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو جوڑنے کا عمل بھی تو خود بخود نہیں ہوا تھا۔

تجزیہ کار امتیاز عالم کے مطابق اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کا کردار بھی مناسب نہیں ہے: ''اب مسلم لیگ ن کا یہ حق تو نہیں ہے کہ وہ پی ٹی آئی کی نشستوں کو لے اڑے۔ سیاسی میدان سے کسی کو آؤٹ کر کے استحکام کیسے آ سکتا ہے؟ اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔‘‘

کوئی 'گارنٹر‘ دستیاب نہیں

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان باہمی اعتماد کا شدید فقدان ہے اور ایسے میں کوئی ایسا 'گارنٹر‘ نہیں ہے جو ان دونوں کے وعدوں کی گارنٹی دے سکے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ اکثر دیکھا جاتا رہا ہے کہ ملک کی سیاسی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں تناؤ کی فضا رہی ہو، لیکن یہ بات دلچسپ ہے کہ موجودہ دور میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ شدید ترین اور قدرے طویل ترین تناؤ حزب اختلاف کی ایک جماعت کے ساتھ نظر آ رہا ہے۔

’صورت حال کسی بھی وقت بدل سکتی ہے‘

روزنامہ دنیا کے گروپ ایڈیٹر سلمان غنی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان شدید مخالفت کے دنوں میں بھی باہمی رابطے کبھی ختم نہیں ہوتے اور اس کی سب سے بڑی مثال پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف ہیں جن کے ساتھ بدترین محاذ آ رائی کے دنوں میں بھی رابطے ٹوٹنے نہیں پائے تھے۔ سلمان غنی مزید کہتے ہیں، ''اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں کے اختلافات وقتی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اگر نواز شریف کو نا اہل اور ملک بدر کرنے کے باوجود ان کی ضرورت پڑ سکتی ہے اور اگر پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دینے کے بعد این آر او ہو سکتا ہے تو پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ میں پائے جانے والے فاصلے کم کیوں نہیں ہو سکیں گے؟‘‘

پاکستانی وزیر اعظم محمد شہباز شریف
انتخابی دھاندلی کے الزامات اور اس حوالے سے انصاف کے ایوانوں میں ہونے والی جنگ نے موجودہ حکومت کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔تصویر: Hamad I Mohammed/REUTERS

اڈیالہ جیل کے حالات سے شناسا امور جیل خانہ جات سے متعلقہ ایک سرکاری اہلکار نے اپنا نام ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ  یہ بات درست ہے کہ عمران خان کے ملاقاتیوں میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جن کی خبریں باہر نہیں آتیں اور وہ بغیر شیڈول دفتری اوقات کے بعد بھی ملاقات کرتے ہیں۔

حبیب اکرم عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین ہونے والے پس پردہ رابطوں کی تاہم نفی کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں دونوں فریق ایک دوسرے کے خلاف عوامی سطح پر اب اتنا آگے جا چکے ہیں کہ اب انہیں جو بھی بات کرنا ہوگی وہ گراؤنڈ پر ہی آ کر کرنا ہوگی اور اب پس پردہ بات چیت نتیجہ خیز نہیں ہو پائے گی۔

’عمران - اسٹیبلشمنٹ کی صلح کا فیصلہ معیشت کرے گی‘

حبیب اکرم کا خیال ہے کہ نارمل بات چیت کا وقت اب گذر چکا ہے: ''یہ صرف آٹھ فروری سے پہلے ہی ممکن تھا۔ اب دونوں فریق اپنے آپ کو بہت طاقتور سمجھ رہے ہیں اور اپنی شرائط سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ صلح تو کمزور طاقتور سے کرتا ہے۔ اب یہ فیصلہ معیشت ہی کرے گی کہ صلح کس کی شرائط پر ہوگی۔ اگر ملکی معیشت بحران سے نکل کر اپنے قدموں پر کھڑی ہوگئی اور عوام کو ریلیف مل گیا تو عمران کو کمپرومائز کرنا پڑے گا۔ وگرنہ دوسرے فریق کو اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر کی مدت ملازمت ختم ہونے والی ہے۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت کا آخری سال بھی چند ماہ بعد شروع ہو جائے گا۔ ایسے میں آنے والا وقت کیسا ہوگا؟ حالات کیا رخ اختیار کریں گے؟ اس سلسلے میں کوئی اندازہ لگانا آسان نہیں ہے۔‘‘

کیا پاکستان میں بھی طاقت کا توازن بدل رہا ہے؟

بعض عوامی حلقے سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو عوام نے جتنی قبولیت دی ہے اگر اس نے اصولوں پر سمجھوتہ کرکے اقتدار کے لیے کوئی ڈیل کرلی تو اس کی مقبولیت اور ساکھ بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ اگر پیچھے ہٹی تو اس کی ملکی معاملات میں طاقت کے بارے میں جو تاثر ملک میں قائم ہے اس میں فرق پڑ سکتا ہے۔ اس لیے یہ محض اقتدار کی لڑائی نہیں ہے۔

عمران خان کی رہائی کے لیے ہونے والے ایک مظاہرے کا منظر
بعض عوامی حلقے سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو عوام نے جتنی قبولیت دی ہے اگر اس نے اصولوں پر سمجھوتہ کرکے اقتدار کے لیے کوئی ڈیل کرلی تو اس کی مقبولیت اور ساکھ بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔تصویر: Rizwan Tabassum/AFP/Getty Images

تجزیہ کار حبیب اکرم کا خیال ہے کہ دنیا بھر میں ریاستوں کے اندر طاقت کا توازن بدل رہا ہے: ''بنگلہ دیش، سری لنکا ہی نہیں یورپ اور امریکہ میں بھی ریاست کے اقدامات اور پالیسیوں کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔ ریاستوں کی اندرونی طاقت کی ری اسٹرکچرنگ ہو رہی ہے۔ جمہوری ملکوں میں تو الیکشن سے طاقت کا توازن تبدیل  اور بہتر ہوتا رہتا ہے، لیکن ترقی پذیر ملکوں میں لوگوں کو جدو جہد کرنا پڑتی ہے۔ پاکستان کی صورتحال کو بھی اسی تناظر میں ہی دیکھنا چاہیے۔ یہاں بھی بالآخر بدلتے ہوئے حالات میں طاقت نے ایک نئے توازن کی طرف ہی آنا ہے۔‘‘