1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف نئے الزامات

28 نومبر 2024

پاکستانی پولیس کی جانب سے انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت سابق وزیر اعظم عمران خان، ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور تحریک انصاف کے کئی دیگر رہنماؤں کے خلاف لوگوں کو تشدد پر اکسانے کے نئے الزامات عائد کر دیے گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4nXFi
سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف لوگوں کو تشدد پر اکسانے کے نئے الزامات عائد کر دیے گئے ہیں
سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف لوگوں کو تشدد پر اکسانے کے نئے الزامات عائد کر دیے گئے ہیںتصویر: K.M. Chaudary/AP/picture alliance

گزشتہ اتوار کو سابق وزیر اعظم عمراں خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی قیادت میں ملک کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا سے ہزاروں افراد نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی طرف مارچ کیا تاکہ خان کی رہائی کا مطالبہ کیا جا سکے، جو اگست 2023 سے سلاخوں کے پیچھے ہیں۔

 عمران خان کے خلاف پہلے ہی 150 سے زائد مقدمات درج ہیں لیکن تحریک انصاف کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ تمام تر مقدمات سیاسی نوعیت کے ہیں اور انہیں جان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

پولیس نے منگل کی رات ان مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے جب پرتشدد کارروائی کی، تو بشریٰ بی بی اسلام آباد سے نکلنے میں کامیاب رہیں۔ وہ بدعنوانی کے ایک مقدمے میں ضمانت پر جیل سے باہر ہیں اور احتجاج کی قیادت کرتے ہوئے دارالحکومت پہنچی تھیں۔

’اسلام آباد سے واپس جا کر بھی پی ٹی آئی خاموش نہیں بیٹھے گی‘

حکام نے بتایا ہے کہ اتوار سے لے کر اب تک اسلام آباد اور اس کے گرد و نواح سے تقریباً 1000 مظاہرین کو گرفتار  کیا جا چکا ہے۔ اس احتجاج کے دوران اب تک چار سکیورٹی اہلکاروں سمیت کم از کم چھ افراد کے ہلاک ہونے کی مصدقہ اطلاعات ہیں۔ اسلام آباد پولیس نے ان ہلاکتوں کا ذمہ دار عمران خان کے حامیوں کو ٹھہرایا ہے۔

حکام نے بتایا ہے کہ اتوار سے لے کر اب تک اسلام آباد اور اس کے گرد و نواح سے تقریباً 1000 مظاہرین کو گرفتار  کیا جا چکا ہے
حکام نے بتایا ہے کہ اتوار سے لے کر اب تک اسلام آباد اور اس کے گرد و نواح سے تقریباً 1000 مظاہرین کو گرفتار  کیا جا چکا ہےتصویر: Aamir Qureshi/AFP

اسی تناظر میں آج بروز جمعرات پولیس نے اسلام آباد اور راولپنڈی میں عمران خان، بشریٰ بی بی اور دیگر رہنماؤں کے خلاف پاکستان کے انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت نئے الزامات جاری کیے۔

صحافی مطیع اللہ جان کی گرفتاری اور دہشت گردی کا الزام

حکام نے ان پر عوام کو سکیورٹی فورسز پر حملہ کرنے کے لیے اکسانے اور امن کو خراب کرنے جیسے الزامات عائد کیے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف یا پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ وہ عمران خان کی رہائی کے لیے کوششیں جاری رکھے گی۔

'دارالحکومت پر قبضہ کرنا چاہتے تھے‘

جمعرات کو ہی منصوبہ بندی اور ترقی کے وفاقی وزیر احسن اقبال اور وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے بین الاقوامی میڈیا کو بتایا کہ خان کے حامی ''دارالحکومت پر قبضہ کرنا چاہتے تھے‘‘ اور ان میں سے کچھ کے پاس ہتھیار تھے۔

حکام نے بتایا ہے کہ اتوار سے لے کر اب تک اسلام آباد اور اس کے گرد و نواح سے تقریباً 1000 مظاہرین کو گرفتار  کیا جا چکا ہے
حکام نے بتایا ہے کہ اتوار سے لے کر اب تک اسلام آباد اور اس کے گرد و نواح سے تقریباً 1000 مظاہرین کو گرفتار  کیا جا چکا ہےتصویر: ABDUL MAJEED/AFP

ان حکومتی عہدیداروں کا کہنا تھا کہ یہ ہتھیار اس وقت ضبط کیے گئے، جب آدھی رات کو سکیورٹی فورسز کی کارروائی جاری تھی۔

احسن اقبال نے کہا کہ سکیورٹی فورسز نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے صرف آنسو گیس اور لاٹھیوں کا استعمال کیا۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے اس دعوے کو بھی مسترد کر دیا کہ عمران خان کے کچھ حامی پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔

سن 2022 میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے یہ ملک کو ہلا دینے والا تازہ ترین احتجاجی مظاہرہ تھا۔ نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق حالیہ سیاسی تناؤ کے باعث پاکستان اسٹاک مارکیٹ کو1.7 بلین ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا لیکن جمعرات کو پہلی بار ملکی سٹاک انڈکس 100,000 پوائنٹس کی حد عبور کر گیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سٹاک مارکیٹ کی یہ کارکردگی ملکی معیشت میں بہتری کی علامت ہے۔

ا ا / م م (اے پی)