1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'حکومت نے مجھے قتل کرنے کی سازش کی'، عمران خان

11 نومبر 2022

سابق وزیر اعظم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ہے کہ ان کے خیال سے پاکستانی حکومت نے ہی ان کے قتل کا منصوبہ بنایا تھا، تاہم انہوں نے اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے حامیوں سے احتجاجی مہم جاری رکھنے کی بھی اپیل کی ہے۔

https://p.dw.com/p/4JMel
Pakistan l  PTI-Chef Imran Khan spricht auf einer Pk im Shaukat Khanum Hospital in Lahore
تصویر: PTI Media Cell

پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ چونکہ وہ اقتدار پر حکومت کی گرفت کے لیے خطرہ سمجھے جاتے ہیں، اس لیے اسلام آباد  کی موجودہ حکومت انہیں قتل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

’سکیورٹی کے لیے خدا کی طرف دیکھ رہے ہیں‘، شاہ محمود قریشی

انہوں نے کہا، ''وہ خوف زدہ ہیں۔ الیکشن کے بارے میں انہیں معلوم ہے کہ وہ مقابلہ نہیں کر سکتے، اور اس لیے ان کا مقصد مجھے راستے سے ہٹانا تھا۔ انہوں نے دوسرے طریقے بھی آزمائے اور مجھے نااہل قرار دینے کی کوشش کے ساتھ ہی میرے خلاف دہشت گردی کے مقدمات بھی دائر کیے۔''

حکومت عمران خان کی تقریریں نشر کرنے پر سے پابندی ہٹانے پر کیوں مجبور ہوئی؟

عمران خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،"جن لوگوں کو سب سے زیادہ خطرہ ہے، جو یہ چاہتے ہیں کہ مجھے ختم کر دیا جائے، وہ موجودہ حکومت ہے۔''

عمران خان سابق قومی کرکٹ ہیرو بھی ہیں، جن کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے سن 1992 میں ورلڈ کپ جیتا تھا۔ انہوں نے اگست سن 2018 سے اپریل 2022 تک بطور وزیر اعظم پاکستان خدمات انجام دیں۔ اس وقت وہ ملک میں جلد عام انتخابات کے لیے ایک احتجاجی مہم چلا رہے ہیں اور اسی کی قیادت کرتے ہوئے گزشتہ تین نومبر کو گولی لگنے سے زخمی ہو گئے تھے۔

ریلی کے دوران بندوق برداروں نے ان پر حملہ کر دیا تھا، جس میں ان کی ٹانگ اور رانوں پر تین گولیاں لگیں۔ اس حملے میں ان کا ایک حامی ہلاک اور دیگر  14 زخمی ہو گئے تھے۔

دعویٰ لیکن ثبوت نہیں

عمران خان کو اس بات کا پورا یقین ہے کہ وہ اسلام آباد کی موجودہ حکومت اور امریکہ کے درمیان ہونے والی ایک سازش کا نشانہ بنے۔

Pakistan Ex-Premier Khan im Krankenhaus
عمران خان کو حملے کے بعد ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا جہاں ا ن کے پیروں سے گولیاں نکال لی گئی ہیںتصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance

 انہوں نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عدم اعتماد کا ووٹ، جس کے ذریعے انہیں گزشتہ اپریل میں عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا، اور اس کے بعد ہونے والا ان پر قاتلانہ حملہ اسی سازش کا حصہ تھے۔

انہوں نے بتایا ''سازش دو ماہ قبل شروع کی گئی تھی۔ انہوں نے اس بہانے سے مجھے راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا کہ ایک جنونی مذہبی شخص مجھے قتل کر دیا ہے۔'' انہوں نے مزید کہا، ''جو لوگ سب سے زیادہ خطرہ محسوس کرتے ہیں اور جو مجھے ختم کرنا چاہتے ہیں، وہ تو موجودہ حکومت ہے۔''

جب ڈی ڈبلیو نے اس سازش کے لیے ان سے ثبوت فراہم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا، تو عمران خان نے کہا کہ اس وقت ان کے پاس جو کچھ بھی ثبوت ہیں، وہ بس ''قرائنی شواہد'' ہی ہیں۔

عمران خان کو حملے کے بعد ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا جہاں ا ن کے پیروں سے گولیاں نکال لی گئی ہیں۔ انہوں نے بات چیت کے دوران اپنے حامیوں پر اس بات کے لیے زور دیا کہ وہ عام انتخابات کرانے پر حکومت کو مجبور کرنے کے لیے اسلام آباد کی جانب اپنا مارچ جاری رکھیں۔

سابق وزیر اعظم نے گزشتہ مہینے کے اواخر میں اس مارچ کا آغاز کیا تھا لیکن اس ماہ کے اوائل میں فائرنگ کی وجہ سے زخمی ہونے کے بعد وہ اسے درمیان میں ہی ترک کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔

ادھر جمعرات کے روز ہی وزیر اعظم شہباز شریف نے جلد انتخابات کے امکان کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ مقررہ وقت کے مطابق ہی ملک  میں عام انتخابات 2023 میں  گے۔

ص ز/ ج ا (جان شیلٹن)

عمران خان پر فائرنگ کے فوری بعد کے مناظر