1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عمران خان کا دورہ سعودی عرب تنقید کی زد میں

عبدالستار، اسلام آباد
22 اکتوبر 2018

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے دورہء سعودی عرب پر پاکستان میں متعدد حلقے چراغ پا ہیں اور وہ اس دورے کے مقاصد اور وقت پر پی ٹی آئی کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/36y96
Pakistan Imran Khan
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B.K. Bangash

عمران خان سعودی عرب کے دورے کے پر پير بائيس اکتوبر کو روانہ ہوئے، جہاں وہ سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت کے علاوہ سعودی فرمانرواں شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔ رياض حکومت کو اس وقت بین الاقوامی برادری میں شدید سفارتی تنہائی کا سامنا ہے۔ کئی ممالک اور کمپنیوں نے قدامت پرست بادشاہت میں ہونے والی سرمایہ کاری کانفرنس کا بھی بائیکاٹ کر دیا ہے۔ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد امریکا اور یورپی ممالک ریاض سے وضاحتیں طلب کر رہے ہیں۔

پاکستان میں تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت جب ریاض بین الاقوامی برادری کی طرف سے تنقید کی زد میں ہے، وہاں کا دورہ غیر دانشمندانہ ہے۔ اسلام آباد کی پریسٹن یونیورسٹی کے شعبہء بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکڑ امان میمن کا کہنا ہے کہ یہ حکومت سفارتی فہم و فراست سے عاری نظر آتی ہے۔ ’’سمجھ سے باہر ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب یورپی یونین سعودی صحافی کے قتل پر چراغ پا ہے، امریکا سعودی عرب کو جھوٹا قرار دے رہا ہے، انسانی حقوق کی تنطیمیں ریاض حکومت کی مذمت کر رہی ہیں اور جرمنی ہتھیاروں کا معاہدہ منسوخ کرنے کے اشارے دے رہا ہے، ہم یہ دنیا کو تاثر دے رہے ہیں کہ ہم قدامت پرست بادشاہت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ دورے کے ليے انتہائی نا مناسب وقت ہے۔ اس سے یورپی ممالک بھی ہم سے ناراض ہوں گے اور خطے کے دو اہم ملک ایران اور ترکی بھی چراغ پا ہوں گے۔‘‘

پی ٹی آئی کا خیال ہے کہ سعودی عرب پاکستان کی مالی مدد کر سکتا ہے اور کئی تجزیہ نگار اس دورے کا مقصد پیسے کے حصول کو قرار دے رہے ہیں لیکن پی پی پی کے رہنما اور سابق وزیرِ مملکت برائے صنعت وپیداوار آیت اللہ درانی کے خیال میں عمران خان کو سعودی عرب کوئی بھیک نہیں دے گا۔ ’’ہم یہ خیال کر رہے ہیں کہ خیرات کے کچھ ٹکڑے ہمیں مل جائیں گے لیکن ریاض ہمیں کوئی پیسے نہیں دے گا۔ باوجود اس کے کہ ہمارے دفترِ خارجہ نے سعودی صحافی کے قتل کی مذمت نہیں کی اور نہ ہی وزارتِ اطلاعات نے ایسا کیا۔ ریاض زیادہ سے زیادہ ہمیں یہ پیشکش کر سکتا ہے کہ ہم تیل ابھی لے لیں اور ادائیگی بعد میں کر دیں، جو کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ پیسے تو بہرحال ہمیں دینے ہی ہیں۔ تو میرے خیال میں اس دورے سے نہ ہمیں کوئی مالی فائدہ ہوگا اور نہ ہی سیاسی و سفارتی۔‘‘

کئی ناقدین کا خیال ہے کہ یہ کانفرنس تو سعودی عرب میں سرمایہ کاری لانے کے ليے ہو رہی ہے۔ پاکستان کی اس میں شرکت کی کوئی منطق نہیں بنتی کیونکہ اسلام آباد تو سعودی عرب میں سرمایہ کاری نہیں کر سکتا۔ معروف تجزیہ نگار ڈاکڑ مہدی حسن کے خیال میں یہ خام خیالی ہے کہ ریاض پاکستان میں کوئی سرمایہ کاری کرے گا۔ ’’سعودی خود کوشش کر رہے ہیں کہ کوئی ان کے ملک میں آ کر سرمایہ کاری کرے۔ ان کے معاشی حالات کوئی بہت اچھے نہیں ہیں اور اب سعودی صحافی کے قتل کے بعد کئی کمپنیاں سعودی عرب کا بائیکاٹ کر رہی ہیں۔ تو ایسے موقع پر ریاض پاکستان کی مالی مدد کیسے کر سکتا ہے؟ لہذا اس دورے کی کوئی منطق نہیں ہے۔ اس وقت تو ہمیں اس قتل کی صاف و شفاف انکوائری کا مطالبہ کرنا چاہیے اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔‘‘
کئی ماہرین کا خیال ہے کہ یمن کی جنگ کی وجہ سے سعودی عرب کی پہلے ہی بہت بدنامی ہو رہی ہے ۔ یمن میں جنگی کارروائیوں کی عالمی تنظیموں اور انسانی حقوق کے گروپوں نے بھی مذمت کی اور اب سعودی صحافی کے قتل کے بعد دنیا میں یہ تاثر ہے کہ ریاض ساری حديں پار کر چکا ہے۔ ایسے موقع پر اسلام آباد کا ریاض سے یکجہتی ظاہر کرنا اس کی ساکھ کو خراب کرے گا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں سعودی عرب پاکستان کو صرف استعمال کرے گا۔ ’’خان صاحب کے دورے کی علامتی اہمیت ہے کہ پاکستان جو ایک ایٹمی ملک ہے اور خطے میں بہت اہم جغرافیہ کا حامل ہے، وہ ریاض کے ساتھ کھڑا ہے اور اظہار یکجہتی دکھا رہے ہے۔ لیکن ایسا کرنے سے ہماری ساکھ خراب ہوگی۔ ریاض ہمیں استعمال کرنے کے بعد ہماری خبر نہیں لے گا۔ عمران خان سرمایہ لانے کی کوشش کريں گے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوں گے۔‘‘

احسن رضا کے خیال میں اس دورے کا مقصد جیو اسٹریجک بھی ہو سکتا ہے۔ ’’پاکستان نے حالیہ برسوں میں دہشت گرد گروپوں کو کافی حد تک ختم کیا ہے۔ کچھ ایران مخالف تنظیمیں بلوچستان میں اب بھی سرگرم ہیں۔ ممکن ہے کہ ریاض پاکستان سے کہے کہ ان تنظیموں پر ہاتھ نہ ڈالا جائے اور انہیں ایران کے خلاف کام کرنے دیا جائے۔ اگر پی ٹی آئی کی حکومت کسی ایسی شرط کو مان کر ریاض سے پیسہ لاتی ہے تو یہ ملک کے ليے بڑا خطرناک ہوگا کیونکہ اس سے ہمارا سماجی ڈھانچہ تباہی کا شکار ہو سکتا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید