1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عمران کے سر پر لٹکتی ہوئی نا اہلی کی تلوار

عبدالستار، اسلام آباد
7 اگست 2018

آج عام انتخابات میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کر دی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن حکام کا کہنا ہے کہ عمران خان کی طرف سے ضابطہء اخلاق کی سنگین خلاف ورزی کی گئی ہے، جس پر انہیں نا اہل بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/32kvG
Pakistan Islamabad PK Wahlsieg Politiker Imran Khan
تصویر: picture-alliance/AP Photo/TIP

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آج عام انتخابات میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کر دی ہے۔ تاہم قومی اسمبلی کے آٹھ کامیاب امیدواروں کے نوٹیفیکشن روک دیے گئے ہیں، جس کی وجہ سے ملک کے کچھ حلقوں میں یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ شاید اس سے حکومت کی تشکیل میں دیر ہو جائے۔
ای سی پی نے تین حلقوں کے لئے عمران خان کی کامیابی کے نوٹیفیکیشن کو مشروط طور پر جاری کیا ہے جب کہ حلقے این اے 131 اور این اے 53 کے نوٹیفیکیشنزکو روک دیا گیا ہے۔ ای سی پی حلقوں کا کہنا ہے کہ پرویز خٹک کے نوٹیفیکیشن کو بھی مشروط طور پر جاری کیا گیا ہے جب کہ عمران خان کے تین حلقوں کے نوٹیفیکیشن کو بھی مشروط طور پر جاری کیا گیا ہے۔ ان حلقوں کے حتمی نوٹیفیکیشن کو ان مقدمات کے بعد جاری کیا جائے گا، جن میں عمران خان، ایاز صادق اور پرویز خٹک کو ای سی پی نے طلب کیا ہے۔ یہ مقدمات ای سی پی کے ضابطہء اخلاق کی خلاف ورزی پر جاری کئے گئے تھے۔ ایاز صادق، پرویز خٹک اور عمران خان کو نامناسب زبان استعمال کرنے پر ای سی پی نے نوٹسسز جاری کئے تھے جب کہ پی ٹی آئی کے سربراہ کو ایک اور نوٹس ووٹ کو خفیہ نہ رکھنے پر دیا گیا ہے۔
ای سی پی کے حکام کا کہنا ہے کہ عمران خان کی طرف سے ضابطہء اخلاق کی سنگین خلاف ورزی کی گئی ہے، جس پر انہیں نااہل بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ ای سی پی کے ایک سینیئر عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’الیکشن ایکٹ دو ہزار سترہ کے مطابق اگر آپ الیکشن کمیشن کے ضابطہ ء اخلاق کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو آپ کو نا اہل کیا جا سکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ دو برس کی قید کی بھی سزا دی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ آپ کو ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔ عمران خان نے جو خلاف ورزی کی ہے وہ سنگین ہے اور ان کو نااہل بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر ان کو کم سزا بھی ہوئی تو وہ نا اہل ہو سکتے ہیں۔‘‘
جب ڈوئچے ویلے نے ان نکات کی تصدیق کے لئے ای سی پی کے ترجمان ندیم قاسم سے دریافت کیا تو انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ای سی پی کو مکمل اختیار ہے کہ وہ ضابطہء اخلاق کی خلاف ورزی پر کسی بھی امیدوار کو نااہل قرار دے۔ گجرانوالہ سے پی ٹی آئی کے امیدوار کو ضابطء اخلاق کی خلاف ورزی پر ہی نا اہل قرار دیا گیا تھا۔ ای سی پی قید اور جرمانے کی سزا بھی دی سکتی ہے۔ تاہم یہ ای سی پی پر منحصر ہے کہ وہ اس خلاف ورزی پر کیا فیصلہ دیتی ہے۔‘‘
ای سی پی کے حکام کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن پر وقت کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ وہ ان مقدمات کا فیصلہ ایک دن میں بھی کر سکتا ہے اور اس میں سالوں بھی لگ سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے سابق جج اور ماضی میں عمران خان کے قریب رہنے والے جسٹس وجیہ الدین کے خیال میں عمران خان کو نا اہل قرار نہیں دیا جائے گا،’’مشرف کے دور میں تو ارکانِ پارلیمان نے باقاعدہ طور پر اپنے ووٹ دکھا کر ڈالے تھے۔ ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں ہوا۔ تو میرے خیال یہاں بھی اس خلاف ورزی کو معمولی قرار دیا جائے گا اور کوئی ایکشن نہیں ہوگا۔‘‘

Pakistan Charsadda PTI Wahlkampf
تصویر: picture-alliance/Photoshot/S. Ahmad

کون کتنے پانی میں: الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری کردہ نتائج
پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ ان کے سربراہ نے ضابطہء اخلاق کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی تو نا اہلی کیسے ہو سکتی ہے؟ پارٹی کے رہنما سینیٹر فیصل جاوید خان نے اس مسئلے پر نقطہء نظر دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’الیکشن کمیشن نے چھوٹی چھوٹی جگہوں پر پولنگ اسٹیشن بنائے۔ عمران خان ایک ووٹر کے طور پر پولنگ اسٹیشن میں آئے تھے۔ یہ ان کی ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ میڈیا کو روکیں۔ یہ ذمہ داری الیکشن کمیشن کی تھی۔ انہیں میڈیا کو روکنا چاہیے تھا تو میرے خیال میں عمران خان نے ضابطہ ء اخلاق کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی۔‘‘
فیصل جاوید نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ نوٹیفکیشن رکنے سے حکومت بنانے میں کوئی تاخیر ہوگی،’’میرے خیال میں ای سی پی کو دس اگست تک سارے نوٹیفیکیشن جاری کرنے ہیں تو حکومت کی تشکیل میں تاخیر کا تاثر درست نہیں ہے۔‘‘
کئی حلقوں کا خیال ہے کہ اگر الیکشن کمیشن فوری طور پر خلاف ورزی سے متعلق مقدمات کے فیصلے کر دے تو غیر یقینی صورتِ حال ختم ہو جائے گی لیکن جب تک یہ فیصلے نہیں ہوتے کپتان کے سر پر نااہلی کی تلوار لٹکتی رہے گی۔

تجزیہ نگار حبیب اکرم کے خیال میں اگر ای سی پی نے فوراﹰ ہی ان مقدمات کا فیصلہ کر دیا تو ٹھیک ہے،’’لیکن اگر انہوں نے معاملے کو لٹکائے رکھا اور عمران خان کو تاریخ پر تاریخ دیتے رہے،پھر عوام میں یہ تاثر جائے گا کہ کچھ قوتیں اس معاملے کو طول دینا چاہتی ہیں تاکہ عمران کے سر پر نا اہلی کی تلوار لٹکی رہے۔‘‘