عورت مارچ: اب بھی مشکلات ومخالفت کا شکار
6 مارچ 2020کل اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس مارچ کو محدود کنے کے حوالے سے ایک پٹیشن دائر کی گئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ مارچ کے شرکا کو حکم دیا جائے کہ وہ غیر اسلامی، غیر آئینی اور غیر قانونی سرگرمیوں کا ارتکاب نہ کریں۔ درخواست گزاروں نے عدالت میں تین نعروں کا بھی حوالہ دیا اور دعوی کیا کہ شرکاء یہ نعرے لگائیں گے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ مارچ کے منتظمین ان نعروں کی وضاحت کر چکے ہیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اس موقع پر درخواست کنندگان سے کہا کہ ملک میں کئی اسلامی قوانین کی خلاف ورزی ہورہی ہے اور یہ کہ عدالت امید کرتی ہے کہ درخواست کنندگان ان خلاف ورزیوں کے حوالے سے بھی عدالت سے رجوع کریں گے۔ عدالت نے دلائل سننے کے بعد درخواست کو مسترد کر دیا۔
عدالت کی طرف سے درخواست کو مسترد کئے جانے کے بعد منتظمین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ بعد ازاں ان کو اسلام آباد کی انتظامیہ کی طرف سے این او سی بھی جاری کر دیا گیا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ منتظمین کو ابھی بھی مشکلات اور شدید مخالفت کا سامنا ہے۔
نیشنل پریس کلب میں عوامی ورکرز پارٹی کی مرکزی رہنما عصمت شاہ جہاں، اے ڈبلیو پی پنجاب کے صدر عمار رشید، فرزانہ باری اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس مارچ کے خلاف بے بنیاد پرو پیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ عصمت شاہ جہاں کا کہنا تھا کہ عورت ظلم، نا انصافی، صنفی امتیاز، زنا بالجبراور قومی و طبقاتی جبر کے خلاف آواز بلند کر رہی ہے اور اس مارچ کا مقصد بھی یہی ہے کہ حکومت سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ وہ ملک میں عورت ایمرجنسی نافذ کرے اور اس کے لئے عورت مارچ کے منتظمین اور خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کے ساتھ ڈائیلاگ کرے۔ "یہ مارچ جبری شادیوں کے خلاف، کم عمری کی شادیوں کے خلاف، جنسی ہراسیت کے خلاف اور ہر اس ظلم کے خلاف ہے، جس کا عورت شکار ہے۔"
پریس کانفرنس کے دوران صورت حال اس وقت تھوڑی سی کشیدہ ہوگئی جب کچھ غیر معروف صحافیوں نے سوالات کی آڑ میں تقریریں کرنا شروع کر دی، جب اے ڈبلیو پی کے کارکنان نے انہیں روکنے کی کوشش کی، تو ہال میں شور شرابہ شروع ہو گیا۔ تاہم منتظمین نے ان غیر معروف صحافیوں کے شور شرابے کو پرجوش نعروں سے دبایا، جس میں انہوں نے عورتوں کی آزادی کے حوالے سے نعرے لگائے۔
عمار رشید نے اس موقع پر بتایا کہ ان کے ایک ٹرک کو تحریک لیبک پاکستان کے کارکنان نے روک لیا ہے اور اس میں موجود بینرز اور دوسرا سامان چھین لیا ہے۔ "ٹی ایل پی کے کارکنان نے ڈرائیور پر بھی تشدد کیا اور مارکیٹ میں دکانداروں کو دھمکی دی کی مارچ کے لئے کوئی بھی سامان نہ دیا جائے ورنہ ان کو نتائج بھگتنے پڑیں گے۔"
ان کا کہنا تھا کہ اب یہ قانون نافذ کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کریں۔عمار رشید نے اسے کھلی غنڈہ گردی قرار دیا اور واضح کیا کہ عدالتی اجازت کے باوجود پر امن شہریوں کے مارچ کو اس طرح روکنے سے اُن کے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔
لیکن منتظمین کو صرف یہ ہی مشکل درپیش نہیں ہے بلکہ اسلام آباد و راولپنڈی کی کئی مذہبی جماعتوں اور مدارس کے ذمہ داروں نے ایک مشترکہ اجلاس میں آج حکومت کو کہا ہے کہ اگر اس نے اس 'خلاف اسلام، خلاف آئین و قانون اور خلاف نظریہ پاکستان' مارچ کو نہیں روکا تو پھر انتظامیہ حالات کی ذمہ دار ہوگی۔ اجلاس کے شرکاء نے اعلان کیا کہ وہ بھی اسلام آباد پریس کلب کے سامنے آٹھ مارچ کو حیا مارچ کا انعقاد کریں گے۔ مذہبی تنظیموں کا یہ اجلاس کالعدم سپاہ صحابہ کے زیر اثر ایک مسجد میں اسلام آباد میں ہوا۔
مارچ کے اعلان سے لے کر اب تک ملک بھر میں اس موضوع پر شدید بحث نے معاشرے کو دو واضح کیمپوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک اس کے حق میں اور ایک اس کی مخالفت میں۔ بحث عوامی توجہ کا مرکز اس وقت بنی جب ڈرامہ مصنف خلیل الرحمن قمر نے حقوق نسواں کی معروف کارکن ماروی سرمد کے خلاف ایک لائیو ٹی وی شو میں انتہائی نا زیبا جملے استعمال کئے۔ ان کے اس رویے سے پورے پاکستان میں اس مارچ اور اس کے نعروں پر بحث شروع ہوگئی۔ شو بز سمیت کئی شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے خلیل الرحمن قمر کے جملوں کی شدید مذمت کی اور ملک کے معروف ٹی وی چینل جیو نے ان سے ہونے والا معاہدہ بھی معطل کر دیا۔
سوشل میڈیا پر دائیں بازو اور مذہبی جماعتوں کے کارکنان کی ایک بڑی تعداد نے خیل الرحمن کے حق میں جملے لکھے اورآج انگریزی روزنامہ ٹریبون کے مطابق معروف اداکار احمد علی بٹ نے بھی اس مارچ کے ایک نعرے میرا جسم میری مرضی کو ہدف تنقید بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک مغربی مہم ہے اور اس کا مقصد جسم فروشی کو قانونی بنانا ہے۔
کئی ناقدین کے خیال میں یہ پاکستان کی تاریخ کا شائد پہلا مرحلہ ہے جہاں شو بز کے افراد، جنہیں پاکستان کے قدامت پرست مولوی گناہ گار اور اسلام مخالف سمجھتے ہیں، اور مذہبی و کالعدم تنظیمیں ایک پروگرام کے خلاف ایک صف میں کھڑے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے مارچ کے منتظمین کو مشکلات ہو سکتی ہیں۔