’غربت کے خاتمے کے لیے لچک اور مفاہمت ناگزیر‘
13 جولائی 2015پیر تیرہ جولائی سے افریقی ملک ایتھوپیا کے دارالحکومت ادیس ابابا میں شروع ہونے والے اس اجلاس کے موقع پر بان کی مون نے کہا کہ غربت کا خاتمہ اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنا اُس وقت ہی ممکن ہو سکے گا جب پالیسیوں میں ’ لچک اور مفاہمت‘ کو مد نظر رکھا جائے۔
اس پانچ روزہ کانفرنس کا مقصد ایک منصفانہ دنیا اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے کم سے کم اخراج کو ممکن بنانے کے لیے حالات کو ساز گار بنانا ہے۔ یہ اپنی طرز کی تیسری کانفرنس ہے۔ اس سے قبل 2002 ء میں پہلی کانفرنس کا انعقاد میکسیکو کے شہر مونٹیری اور 2008 ء میں دوحہ میں ہوا تھا۔
ٹھوس الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ادیس ابابا میں ہونے والے اجلاس میں شرکاء پانچ روز تک اس بارے میں بحث و مباحثہ کریں گے کہ ترقی پذیر ممالک کی پائیدار ترقی کے شعبوں میں سالانہ سرمایہ کاری کے خلا کو پر کرنے کے لیے کون کون سے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تجارت، سرمایہ کاری اور ترقی‘ UNCTAD کے اندازوں کے مطابق دنیا کی ترقی پذیر قوموں کے پائیدار ترقیاتی سیکٹر میں سالانہ ڈھائی ٹریلین ڈالر کی رقم کا خلا پایا جاتا ہے۔ اس کے سبب اس عالمی ادارے کو 2015 ء تا 2030 ء تک کے لیے پائیدار ترقی سے متعلق طے کردہ اپنے اہداف تک پہنچنے میں کامیابی کے امکانات نظر نہیں آرہے ہیں۔ ان اہداف کو حتمی طور پر رواں برس اکتوبر میں نیو یارک میں اپنایا جانا ابھی باقی ہے۔
غربت کے خاتمے سے لے کر قابل تجدید توانائی تک عالم گیر رسائی سے متعلق 17 اہداف طے کیے گئے ہیں۔ ادیس ابابا میں پانچ روزہ اجلاس کے آغاز پر اپنے بیان میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا،’’میں اس ہفتے یہاں جمع ہونے والے دنیا کے تمام لیڈروں اور وزراء سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ لچک اور مفاہمت کا مظاہرہ کریں۔ آئیے ہم تمام انسانیت کی بھلائی کے لیے اپنے ذاتی مفادات اور اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے مل کر ایک جہت میں کام کرنے کا عزم کریں‘‘۔
اس کانفرنس کی تیاری کے سلسلے میں نیو یارک میں ہونے والی بات چیت ناکام ہو چُکی ہے۔ امیر ممالک اس سمٹ کے ایک مشترکہ نتیجے پر متفق ہو سکے تھے۔ ان میں سے متعدد ملکوں کو خود اپنے مالیاتی مسائل کا سامنا ہے اور یہ اپنے امدادی بجٹ میں اضافے کے فیصلے سے ہچکچا رہے ہیں اور پرائیوٹ سیکٹرکی مداخلت اور چین اور بھارت جیسی اُبھرتی ہوئی اقتصادی قوتوں پر اس بوجھ کو اُٹھانے پر زور دے رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ڈیویلپمنٹ ایڈ پروگرام کے ایک پالیسی اسپیشلسٹ گیل ہیرلی کے بقول،’’ بہت سے امداد دھندہ یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ ترقیاتی امداد کون وصول کرے گا؟۔ متوسط آمدنی والے مملک سے یہ کہتے ہیں کہ آپ لوگ امیر ہیں، آپ اپنے پیسے خود بنا سکتے ہیں، ہمیں غریب ملکوں پر توجہ مرکوز دینے دیں‘‘۔