غزہ سیزفائر کی راہ میں حائل فلاڈیلفی کوریڈور اتنا اہم کیوں؟
23 اگست 2024غزہ پٹی میں مصر کی سرحد کے ساتھ زمین کا ایک تنگ سا ٹکڑا اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ بندی کے لیے مذاکرات میں ایک اہم رکاوٹ کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو چاہتے ہیں کہ ان کا ملک فلاڈیلفی یا صلاح الدین کوریڈور کہلانے والے زمین کے اس حصے کا کنٹرول مستقل طور پر اپنے پا س رکھے۔
اسرائیل نے سات اکتوبر کو حماس کے دہشت گردانہ حملے کے بعد غزہ میں شروع ہونے والی جنگ میں زمین کے اس ٹکڑے پر قبضہ کر لیا تھا۔
خار دار تاروں سے محفوظ کیا گیا یہ زمینی ٹکڑا 14 کلومیٹر (8.5 میل) لمبا ہے۔ اس کا تنگ ترین مقام تقریباً 100 میٹر (330 فٹ) چوڑا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے نیچے سرنگیں کھودی گئی ہیں اور یہ اسمگلنگ کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ یہ زمینی راہداری اسرائیلی فوج نے تعمیر اس عرصے میں کی تھی، جب 1967 اور 2005 کے درمیان غزہ پٹی براہ راست اسرائیل کے قبضے میں تھی۔ یہ حماس کے خلاف اسرائیل کی موجودہ کارروائی میں ایک اہم ہدف بھی ہے۔
غزہ میں ممکنہ جنگ بندی اور حماس کے قبضے سے یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے پر قاہرہ میں جاری بات چیت کے دوران فلاڈیلفی کوریڈور ایک اہم نکتہ ہے۔ جمعرات کو اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ نیتن یاہو کا دعویٰ ہے کہ ''حماس کو دوبارہ مسلح ہونے سے روکنے کے لیے‘‘ اس علاقے پر اسرائیلی کنٹرول ضروری ہے۔ حماس، جو مصر میں ہونے والے مذاکرات کے تازہ ترین دور میں شریک نہیں، غزہ سے مکمل اسرائیلی انخلا کا مطالبہ کرتی ہے۔
مصر کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے بھی اس ہفتے ''فلاڈیلفی کوریڈور اور رفح ٹرمینل سے اسرائیلی فوجیوں کے مکمل انخلا‘‘ کا مطالبہ کیا تھا، جو مصر کے ساتھ غزہ کی سرحد پر ایک اہم گزرگاہ ہے۔ اسرائیل اور مصر کے درمیان 2005 میں ہونے والے ایک معاہدے کی وجہ سے اس راہداری کو بفر زون کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔ یہ وہ سال تھا، جب غزہ پٹی سے اسرائیل نے یکطرفہ طور پر انخلا کیا تھا۔
اس راہداری کے قیام کا مقصد غزہ کے اندر اور باہر نقل و حرکت پر قابو پانا اور دراندازی اور اسمگلنگ کی حوصلہ شکنی کرنا تھا۔ راہداری کے قیام کے وقت وہاں قائم کچھ فلسطینیوں کے مکانات کو بھی منہدم کرنا پڑا تھا۔
ستمبر 2005 میں جب اسرائیلی فوجیوں کا غزہ سے انخلا ہوا، تو مصر نے سرحد کی حفاظت کے لیے تقریباً 750 اہلکاروں پر مشتمل ایک فورس قائم کی تھی۔ مصری فورس کا یہاں پر بیان کردہ مقصد علاقے میں ''دہشت گردی‘‘ کے خلاف لڑنا تھا۔
اس وقت غزہ پر فلسطینی صدر محمود عباس کی سربراہی میں فلسطینی اتھارٹی کی حکومت ہوا کرتی تھی، جس نے بھی فلاڈیلفی کوریڈور کو محفوظ بنانے کے لیے یہاں محافظوں کو تعینات کیا تھا۔
لیکن جون 2007 میں عسکریت پسند گروپ حماس نے محمود عباس کی فتح پارٹی کو بھاری اکثریت سے شکست دے کر غزہ کی پٹی پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ بعد ازاں یہ سرحدی علاقہ اسلحے کی اسمگلنگ کی وجہ سے تشویش کا سبب بن گیا اور یہاں سے مقامی مسلح گروہوں کو ہتھیاروں کی فراہمی کی جاتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ فلاڈیلفی کوریڈور کے نیچے سینکڑوں سرنگیں کھودی گئی ہیں، جو ہتھیاروں سے لے کر کاروں، منشیات اور یہاں تک کہ کینٹکی فرائیڈ چکن (کے ایف سی) سمیت ہر چیز کی اسمگلنگ کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
بین الاقوامی تنظیموں کے مطابق مسلح جنگجو ان زیر زمین راستوں کو سرحد کے آر پار آمد و رفت کے لیے گزرگاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں جبکہ اسمگلر مختلف وجوہات کی بنا پر شہریوں کو طبی علاج معالجے سے لے کر شادیوں میں شرکت تک کے لیے سفری سہولیات فراہم کرتے ہیں۔
فلسطینیوں کے لیے یہ سرنگیں اسرائیل کی جانب سے غزہ میں حماس کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے عائد کردہ زمینی، سمندری اور فضائی ناکہ بندی کو نظر انداز کرنے کا ایک طریقہ رہی ہیں۔
مصر کے موجودہ صدر عبدالفتاح السیسی جب 2013 میں برسراقتدار آئے، تو قاہرہ حکومت نے ان میں سے بہت سی سرنگوں کو تباہ کر دیا اور فلسطینی عسکریت پسندوں پر الزام لگایا کہ وہ ان سرنگوں کو ہمسایہ جزیرہ نما سینائی میں جہادی گروپوں کو اسلحہ اور جنگجو اسمگل کرنے کے لیے استعمال کر رہے تھے۔
گزشتہ ہفتے اسرائیلی فوج نے اعلان کیا تھا کہ اس نے فلاڈیلفی کوریڈور کے نیچے لگ بھگ 50 سرنگوں کو تباہ کر دیا ہے۔ سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر کیے گئے دہشت گردانہ حملے کے بعد سے جاری جنگ میں اسرائیلی وزیر اعظم نے ہمیشہ اس سرحدی علاقے کی تزویراتی اہمیت پر زور دیا ہے۔
اسرائیلی فوج نے اس سال مئی میں اعلان کیا تھا کہ اس نے فلاڈیلفی کوریڈور کا ''آپریشنل کنٹرول‘‘ سنبھال لیا ہے۔ مصری حکومت کی اسٹیٹ انفارمیشن سروس کی سربراہ دیا رشوان نے جنوری میں پین عرب نیوز چینل الغد کو بتایا تھا کہ اس طرح کا ''قبضہ‘‘دونوں ممالک (مصر اور اسرائیل ) کے مابین ''معاہدے کی وجہ سے ممنوع ہے۔‘‘
رشوان نے کہا کہ یہ ''اسرائیلی مصری امن معاہدے کی خلاف ورزی کا خطرہ‘‘بھی پیدا کرتا ہے ۔ امریکہ کی ثالثی میں 1979 میں ہونے والا امن معاہدہ اسرائیل اور کسی عرب ملک کے درمیان پہلا امن معاہدہ تھا۔
غزہ میں لڑائی جاری
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے جمعرات سے غزہ کی پٹی میں جاری لڑائی میں درجنوں عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ آج جمعے کے روز ایک بیان میں اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس نے غزہ کے جنوب میں خان یونس شہر اور مزید شمال میں دیر البلاح کے علاقوں میں لڑائی کے دوران دہشت گردوں کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے۔
بیان کے مطابق اسرائیلی فضائیہ نے ان پوزیشنوں پر بھی بمباری کی، جہاں سے اسرائیل پر راکٹ داغے گئے۔ فلسطینی خبر رساں ایجنسی وفا نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں متعدد شہری مارے گئے ہیں۔
شمالی اسرائیل میں لبنان کی سرحد کے قریب اسرائیلی فوج اور لبنان کی ایران نواز شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے مابین بھی دوبارہ فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے۔
اس ملیشیا کی جانب سے دی گئی کسی بھی اطلاع کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی۔ اسرائیل پر سات اکتوبر کو حماس کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد سے شروع ہونے والی جنگ میں اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے امور سے متعلق رابطہ دفتر (OCHA) کے مطابق غزہ کی تقریباً 90 فیصد آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔
غزہ کی ساحلی پٹی میں تقریباً 2.2 ملین لوگ رہتے ہیں اور اقوام متحدہ کے مطابق بہت سے لوگ متعدد بار بے گھر ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے نمائندوں نے فریقین سے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے تاکہ صحت کی خدمات مہیا کرنے والے کارکنوں کو جنگ زدہ علاقے میں لاکھوں بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی اجازت دی جا سکے۔
بچوں کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی امدادی تنظیم سیو دی چلڈرن نے جمعرات کے روز متنبہ کیا تھا کہ اگر اس بیماری پر قابو نہ پایا گیا تو غزہ میں پولیو کی وبا اس مرض کے عالمی سطح پر خاتمے کی کوششوں کو متاثر کرے گی۔
ش ر⁄ م م، م ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)