غزہ کے لئے امداد لے کر بحری بیڑہ چل پڑا
31 مئی 2010اس امدادی بیڑے Freedom Flotilla میں سب سے آگے ترکی کی کشتی اور اس کے پیچھے پیچھے سویڈن، آئرلینڈ اور یونان کی کشتیاں ہیں۔ یورپی پارلیمان کے بعض ارکان اور سات سو رضا کار بھی کشتیوں میں موجود ہیں۔ ادھر اسرائیلی بحریہ کے جہاز انہیں غزہ جانے سے روکنے کے لئے حائیفہ کے بندرگاہی شہر سے چل پڑی ہیں۔
اس امدادی مہم کے ایک منتظم تنظیم غزہ آزادی تحریک Free Gaza Movement کے ترجمان میری ہیوگز تھامپسن کے مطابق اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا، تو غزہ کے مقامی وقت کے مطابق پیر کو دوپہر دو بجے یہ امدادی قافلہ غزہ کے متاثرین تک پہنچ جائے گا۔
حماس کے کارکن بے چینی سے غزہ شہر کی چھوٹی بندرگاہ پر اس امدادی سامان کا انتظار کر رہے ہیں۔ غزہ میں لگ بھگ کوئی ایک اعشاریہ پانچ ملین افراد کو پینے کے صاف پانی اور ادویات کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
غزہ پٹی کے ساحل پر ہفتے کو مچھیروں نے امدادی سامان بھیجنے والے ممالک کے پرچم اور غزہ جنگ میں مارے جانے والے بچوں کی تصاویر غباروں کے ساتھ جوڑ کر کھلی فضاء میں چھوڑے۔
اسرائیلی فوجی حکام کے مطابق اس امدادی قافلے میں شامل لوگوں کو گرفتار کرکے ملک بدر کیا جاسکتا ہے۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ اس سارے سامان کی پہلے اسرائیلی فوجی تلاشیں لیں گے، پھر وہ خود اسے غزہ منتقل کردیں گے۔ اسرائیلی نائب وزیر خارجہ ڈینی ایالون نے غزہ کے متاثرین تک امداد کی فراہمی کی اس کوشش کو اشتعال انگیز عمل قرار دیا ہے۔
2007ء میں غزہ میں حماس کی حکومت قائم ہونے کے بعد تین سال سے اسرائیل اور مصر نے اس پٹی کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ اسرائیل کے بقول وہ ایسا اس لئے کر رہا ہے تاکہ حماس کے جنگجووں تک اسلحے کی سمگلنگ روکی جاسکے۔ 2008ء کے دسمبر میں اسرائیل نے حماس کے راکٹ حملوں کے جواب میں غزہ پر حملہ کردیا تھا، جس میں تقریبا چودہ سو سے زائد فلسطینی مارے گئے تھے۔ غزہ کے شہریوں کا انحصار بڑی حد تک اقوام متحدہ کی امداد پر ہے۔
ترک حکومت نے باضابطہ طور پر اسرائیل سے درخواست کی ہے کہ غزہ کے فلسطینوں تک اس امدادی سامان کی فراہمی کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔ ترکی کا شمار ان گنے چنے مسلم ممالک میں ہوتا ہے، جس کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم ہیں۔ غزہ پر اسرائیل کے حملے کے بعد سے یہ تعلقات بھی سرمہری کا شکار چلے آرہے ہیں۔
غزہ کی پارلیمان کے آزاد رکن جمال ال خبیری نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ امدادی سامان کے اس بیڑے کو اسرائیل کی دھمکیوں سے سلامت رکھنے کو یقینی بنایا جائے۔ Pro-Palestinian نامی تنظیم کے رضا کار پہلے بھی پانچ بار غزہ تک پہنچے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ 2008ء سے شروع کئے گئے اس سلسلے میں انہیں تین بار ناکامی کا سامنا بھی ہوا جبکہ امدادی سامان کے حجم کے حوالے سے حالیہ کوشش سب سے بڑی سمجھی جارہی ہے۔
دریں اثناء فلسطینی مزاحمتی جماعت حماس کے رہنما خالد مشعال نے اعلان کیا ہے کہ اگر اسرائیل 1967ء کی جنگ کے بعد قبضہ کی گئی فلسطینی زمین چھوڑ دے، تو ان کی جماعت مسلح جدوجہدر ترک کردے گی۔ یہ بات انہوں نے ایک امریکی ٹیلی ویژن سٹیشن کو دئے گئے انٹرویو میں کہی ہے۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : عاطف توقیر