غزہ کے لیے نیا فلوٹیلا، اسرائیل کی پریشانی میں اضافہ
29 مئی 2011گزشتہ برس مئی میں اسرائيل کے زير محاصرہ فلسطينی علاقے غزہ کے لئے امدادی اشياء لے جانےوالے نو بحری جہاز روانہ ہوئے۔ اسرائيلی فوج نے بحيرہء روم ميں اس بحری قافلے پر حملہ کر کے نو ترک امدادی کارکنوں کو ہلاک کرديا تھا۔ اس واقعہ کے بعد انقرہ اور یروشلم کے مابین سیاسی تناؤ پیدا ہو گیا تھا۔ ساتھ ہی اس ہلاکت خيز کارروائی کی دنیا بھر میں شدید الفاظ میں مذمت بھی کی گئی اور ایک دم اسرائیل عالمی سطح پر تنہا ہو گیا تھا۔
اب اس واقعے کو تقریباً ایک سال بیت گیا ہے۔ ابھی بھی ترکی اور اسرائیل کے باہمی تعلقات میں سرد مہری برقرار ہے۔ لیکن ساتھ ہی اسرائیل کو اب ایک اور بحران کا سامنا ہے اور وہ ایک نیا ’فریڈم فلوٹیلا‘ ہے، جو غزہ کے لیے امدادی سامان لے کر 15بحری جہازوں پر مشتمل یہ قافلہ جون کے آخر میں روانہ ہو گا۔ ایک اسلامی خیراتی تنظیم آئی ایچ ایچ کے مطابق اس مرتبہ 100سے زائد ممالک کے تقریباً 15سو کارکن اس امدادی مشن میں شرکت کر رہے ہیں۔ آئی ایچ ایچ کے سربراہ بولینٹ یلدرم نے کہا، ’’اگراسرائیلی حکام کا تھوڑا سا بھی ضمیر باقی ہے تو وہ دوسری مرتبہ امدادی قافلے کی راہ کی رکاوٹ نہیں بنیں گے۔‘‘
گزشتہ برس سے لے کر اب تک کئی مرتبہ امدادی جہازوں نے اسرائیلی ناکہ بندی توڑتے ہوئے غزہ تک جانے کی کوشش کی لیکن ہر مرتبہ انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ابھی دو ہفتے قبل ہی اسرائیلی بحریہ نے ملائشیا کے ایک امدادی جہاز کو انتباہی فائرنگ کرتے ہوئے مصر کی جانب مڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔
ترکی ابھی تک یروشلم حکام سے گزشتہ برس کی اسرائیلی کارروائی میں ہلاک ہونے والے اپنے شہریوں کی ہلاکت پر معافی اور ہونے والے نقصان کی تلافی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ ساتھ ہی ترکی نے اسرائیل کو نئے فلوٹیلا کے خلاف کسی بھی خونریز کارروائی سے خبردار کیا ہے۔ دوسری جانب اسرائیل نے غزہ کے لیے امدادی سامان کے ایک بیڑے کے منصوبے کو اشتعال انگیز اور غیر ضروری قرار دیا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے ترجمان نے کہا کہ اسرائیل اس بات کو ممکن بنانےکی بھرپور کوشش کرے گا کہ صرف وہ امدادی سامان ہی غزہ تک پہنچے، جس کی باقاعدہ طور پر چیکنگ کی جا چکی ہو۔ تاکہ اسلحہ اور دیگر آتشی سامان کی اسمگلنگ کو روکا جاسکے۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت : شامل شمس