’غزہ کے لیے ہتھیاروں کی کھیپ‘ پر اسرائیلی قبضہ
6 مارچ 2014اسرائیلی حکام نے الزام لگایا ہے کہ غزہ پٹی کے شدت پسندوں کے لیے یہ ہتھیار ایران نے روانہ کیے تھے۔ اس بحری جہاز پر شامی ساختہ M-302 راکٹ لدے ہوئے تھے۔ یروشلم حکام کے مطابق ان راکٹوں کے ذریعے غزہ سے اسرائیل کے تمام شہروں کا نشانہ بنایا جا سکتا تھا۔
اسرائیلی بحریہ نے اس جہاز کے خلاف کارروائی بحیرہ احمر میں بین الاقوامی سمندری حدود میں کی۔ اس جہاز کو سوڈان کے ساحل سے 160 کلومیٹر کے فاصلے پر روکا گیا۔ حکام کے مطابق یہ کارروائی مہینوں سے جاری مشکل انٹیلیجنس کے نتیجے میں ممکن ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ یہ راکٹ گزشتہ ماہ شام سے ایران بھیجے گئے تھے جہاں وہ بندر عباس سے عراق میں امِ قصر کے علاقے میں پہنچے۔ حکام کا کہنا تھا کہ عراق سے یہ راکٹ ایک سویلین بحری جہاز KLOS C کے ذریعے سوڈان روانہ کر دیے گئے۔ انہوں نے مزید بتایا گیا کہ وہاں سے ان ہتھیاروں کو مصر کے راستے غزہ اسمگل کیا جانا تھا۔
اسرائیل فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل بینی گانٹس نے صحافیوں کو بتایا: ’’ایک مؤثر انٹیلیجنس کارروائی کے ذریعے ہم کافی عرصے سے اس جہاز کا پیچھا کر رہے تھے۔‘‘
اے پی کے مطابق انہوں نے اس کارروائی کی مزید تفصیل فراہم نہیں کی، تاہم اسرائیل کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے حریفوں کی جاسوسی کے لیے سیٹلائٹس کی مدد لیتا ہے۔
غزہ پٹی میں شدت پسندوں کے پاس پہلے ہی ہزاروں راکٹ موجود ہیں تاہم ان کے بارے میں خیال ہے کہ وہ کم فاصلے تک مار کر سکتے ہیں۔ غزہ میں موجود راکٹوں کی نشاندہی اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ 2012ء میں آٹھ روز تک جاری رہنے والی لڑائی کے دوران اسرائیل پر ڈیڑھ ہزار راکٹ فائر کیے گئے تھے۔ ان میں سے بیشتر یروشلم اور تل ابیب کے نواحی علاقوں میں گِرے تھے۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق اس کارروائی سے ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات پر سخت مؤقف اختیار کرنے کے اسرائیلی مطالبوں کو مزید تقویت ملی ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے دورہ امریکا کے موقع پر بدھ کو کیلی فورنیا میں باتیں کرتے ہوئے کہا: ’’ایران کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ جنیوا میں مذاکرات کے دوران اس کے رہنما اپنے جوہری ارادوں پر مسکراتے ہیں، میٹھے بول بولتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے وہ دنیا کے بدترین دہشت گردوں کے لیے ہتھیار روانہ کر رہے ہیں۔ ایسی حکومت کے پاس جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت نہیں ہونی چاہیے۔‘‘