غلامی کا عالمی انڈیکس: شمالی کوریا اور اریٹیریا سب سے آگے
19 جولائی 2018جدید غلامی کے عالمی انڈیکس کا اجراء کر دیا گیا ہے۔ اس انڈیکس کے مطابق دنیا کے مختلف علاقوں میں چالیس ملین انسان ایسے حالات کا سامنا کر رہے ہیں، جنہیں جدید غلامانہ رویے یا اپروچ کا شاخسانہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ ایک انٹرنیشنل غیرسرکاری تنظیم واک فری فاؤنڈیشن نے مرتب کی ہے۔
اس انڈیکس کے مطابق کمیونسٹ ملک شمالی کوریا میں ہر دس میں سے ایک شخص جدید غلامی کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ شمالی کوریا کے بارے میں یہ رپورٹ پچاس کورین منحرفین کی فراہم کردہ معلومات پر مبنی ہے۔ ایسے افراد سے بغیر اُجرت جبری مشقت لی جاتی ہے جن میں بچے اور بالغ بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب شمالی کوریائی حکومت جبری مشقت کے الزامات کی شدت کے ساتھ تردید کرتی ہے۔
واک فری فاؤنڈیشن کی ریسرچر فیونا ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا، وسطی افریقی جمہوریہ اور اریٹیریا میں حکومتوں نے ایسے حالات پیدا کر رکھے ہیں، جن کی وجہ سے ان ملکوں کے شہریوں کو غلامانہ حالات کا سامنا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ حکومتیں اپنی منفعت کے لیے ان افراد سے جبری مشقت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اریٹیریا، برونڈی، سینٹرل افریقن ریپبلک اور افغانستان اس انڈیکس کے پہلے دس ممالک میں شامل ہیں۔ اس رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ بھارت اپنی انتہائی بڑی آبادی (1.3 بلین) کے حجم کے تناظر میں دنیا میں سبے زیادہ جدید غلامی میں جکڑے ہوئے افراد رکھتا ہے۔ ان کی تعداد تقریباً 18.4 ملین ہے۔ جدید غلامی کا انڈیکس سن 2016 تک کے اعداد و شمار پر مبنی ہے۔
چین، پاکستان، بنگلہ دیش اور ازبکستان بھی اُن ریاستوں میں شمار کیے گئے ہیں، جہاں جدید غلامی کے رجحانات پائے جاتے ہیں۔ ان ممالک میں اٹھاون فیصد افراد کو غلامانہ ذہنیت اور غیر معمولی ناروا سلوک کا سامنا ہے۔ پاکستان میں جبری مشقت کے زمرے میں دیہات میں مزارعوں کی صورت میں کھیتوں میں کام کرنے کے علاوہ اینٹیں بنانے والے بھٹوں پر بھی ایسے مشقتی افراد رکھے جاتے ہیں جنہیں انتہائی مشکل حالات کا سامنا ہے۔
واک فری فاؤنڈیشن کو رپورٹ مرتب کرنے میں اقوام متحدہ کے ادارے عالمی ادارہ برائے محنت کا تعاون بھی حاصل رہا ہے۔