1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غیر قانونی تارکین وطن معیشت اور سلامتی کے لیے خطرہ، آرمی چیف

7 دسمبر 2023

پاکستان کے آرمی چیف سید عاصم منیر کا کہنا ہے کہ غیر قانونی طور پہ مقیم غیر ملکی پاکستان کی سلامتی اور معیشت پر بری طرح اثر انداز ہو رہے ہیں۔ کئی مبصرین کے خیال میں یہ بیان حقائق کی مکمل عکاسی نہیں کرتا۔

https://p.dw.com/p/4ZtQH
پاکستان کے آرمی چیف سید عاصم منیر
تصویر: W.K. Yousufzai/AP/picture alliance

دورہ پشاور کے دوران پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کی طرف سے دیے گئے اس بیان کو کئی حلقے ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ مبصرین اور سکیورٹی ماہرین کا خیال ہے کہ اس طرح کا بیان، غیر قانونی طور پہ مقیم تارکین وطن، خصوصاﹰ افغان مہاجرین کو، قربانی کا بکرا بنانے کے مترادف ہے اور یہ کہ پاکستان کے سکیورٹی کے مسائل پاکستان کے اپنے پیدا کردہ ہیں۔
افغان مہاجرین کی ملک بدری، پاکستان کے لیے سکیورٹی چیلنج؟

غیرقانونی افغان مہاجرین کی ملک بدری پرسپریم کورٹ نے کیا کہا؟

آرمی چیف نے یہ بیان جمعرات سات دسمبر کو پہلی نیشنل ورکشاپ خیبر پختونخوا ون کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔ سید عاصم منیر کا کہنا تھا غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو ملک سے نکالنے کا فیصلہ پاکستان کے مفاد میں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان غیر ملکیوں کو ایک مہذب اور باوقار طریقے سے ان کے ممالک واپس بھیجا جا رہا ہے، جو مروجہ روایات اور ضابطوں کے مطابق ہے۔

’پاکستان کی اندرونی سلامتی میں غفلت کا الزام غیر ملکیوں پہ نہیں ڈالا جا سکتا‘

تاہم سکیورٹی کے کئی ماہرین اور تجزیہ نگار آرمی چیف کی اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے اور ان کے خیال میں پاکستان کی اندرونی سلامتی میں غفلت کا الزام غیر ملکیوں پہ نہیں ڈالا جا سکتا۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ڈاکٹر فیض اللہ جان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا الزام غیر ملکی تارکین وطن، خصوصاﹰ افغانوں پہ ڈالنا، انہیں قربانی کا بکرا بنانے کے مترادف ہے: ''یہ افغان دہائیوں سے پاکستان میں رہ رہے ہیں اور ان میں سے اکثریت محنت مشقت کر کے اپنا گزارا کرتی ہے۔ پاکستان میں سلامتی کا مسئلہ خالصتاﹰ ایک اندرونی معاملہ ہے جس کے ذمہ داری یہاں کے حکمرانوں کو لینی چاہیے۔‘‘

ایک افغان باشندہ طورخم سرحد پر
پاکستان نے ملک میں مقیم غیر قانونی طور پر لاکھوں افغان باشندوں کو واپس بھیج دیا ہے۔تصویر: Ebrahim Noroozi/AP Photo/picture alliance

معروف صحافی سمیع یوسف زئی کا کہنا ہے کہ یہ حیران کن بات ہے کہ ریاست سلامتی کے بحران کی ذمہ داری افغان مہاجرین پہ ڈال رہی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس طرح کے بیانات ان لوگوں کے احتساب سے رخ موڑنے کے مترادف ہیں، جو سلامتی کے ذمہ دار ہیں۔ افغان مہاجرین کو افغان طالبان پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ وہ ٹی ٹی پی کو افغانستان میں کنٹرول کرے۔‘‘

سمیع یوسف زئی کے مطابق افغان طالبان اپنے لوگوں کی افغانستان میں فکر نہیں کرتے اور نہ ہی انہیں مہاجرین کی کوئی فکر ہے۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان میں سلامتی کا مسئلہ اس کی اندرونی اور بیرونی پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ پاکستان نے افغان مجاہدین اور بعد میں افغان طالبان کی حمایت کی اور افغان طالبان پاکستانی طالبان کو اپنی ہی تحریک کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اس پیچدہ پالیسی کی وجہ سے پاکستان میں عسکریت پسندی بڑھی۔‘‘

اس صحافی کے مطابق پاکستان کے ذمہ داران اپنے نا اہلی کو چھپانے کے لیے یہ الزام افغان مہاجرین پہ ڈال رہے ہیں۔

دہشت گردی اور عسکریت پسندی پر کئی تحقیقی مقالے لکھنے والے عرفان اشرف کا کہنا ہے کہ اس امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ افغان مہاجرین میں سے کچھ تحریک طالبان پاکستان کی دہشت گردی میں ملوث ہوں تاہم اس کا امکان بہت ہی کم ہے: ''یہ امکان اس لیے کم ہے کیونکہ ٹی ٹی پی کا پاکستان کے اندر بہت مضبوط نیٹ ورک ہے۔ ان کے سارے کے سارے رہنما باجوڑ، جنوبی اور شمالی وزیرستان اور دوسرے علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ ان کا بڑا مضبوط رابطہ پنجابی طالبان سے بھی رہا ہے، جنہوں نے ماضی میں جی ایچ کیو، مہران ایئر بیس اور کئی دوسرے مقامات پر حملے کیے۔‘‘

عرفان اشرف کے مطابق غیر ملکیوں میں القاعدہ سے وابستہ لوگوں نے بھی پاکستان میں حملے کیے ''لیکن القاعدہ کو بھی مقامی طور پر ٹی ٹی پی سپورٹ کر رہی تھی اور جب القاعدہ کے لوگ بھاگ کر یہاں آئے تو ٹی ٹی پی والوں نے ہی انہیں پناہ دی تھی۔‘‘

پاکستان سے ملک بدری کے بعد افغان مہاجرین کی حالت زار

عرفان اشرف مزید کہتے ہیں، ''میرے خیال میں افغان مہاجرین کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ اتنے بڑے حملوں میں ملوث ہوں۔ یہ کہنا کہ افغان مہاجرین کا پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں ہاتھ ہے اس حقیقت کی نفی کرتا ہے کہ پاکستانی طالبان ملک کے اندر طاقتور ہیں۔‘‘

’بیان جزوی طور پر درست ہے‘

تا ہم کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ آرمی چیف کا بیان کسی حد تک صحیح ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار امتیاز عالم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف طالبان ہیں جو دہشت گردی میں ٹی ٹی پی اور داعش کے ذریعے ملوث ہیں اور ان کی حمایت یا سرپرستی تحریک طالبان افغانستان کر رہی ہے۔‘‘

امتیاز عالم کے مطابق تاہم افغانوں کی اکثریت معاشی تارکین وطن ہیں: ''اس کے علاوہ کئی افغان جیسے کہ فنکار، صحافی، لکھاری وغیرہ طالبان کے ظلم کا شکار ہیں اور ایسے افراد تو سیاسی پناہ ملنی چاہیے۔‘‘

دفاعی امور کے ماہر لیفٹیننٹ جنرل نعیم لودھی کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین کے دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''زیادہ تر افغان مہاجرین انتہائی غریب ہیں اور بے روزگار ہیں تو کوئی بھی انہیں لالچ دے کر ایسی ایجنسیوں کے لیے استعمال کر سکتا ہے جو پاکستان دشمن ہوں یا ایسے عناصر بھی ان کو استعمال کر سکتے ہیں جو پاکستان میں چین پاکستان اکنامک کوریڈور کو چلتا ہوا دیکھنا نہیں چاہتے یا جنہیں پاکستان کے مفادات اچھے نہ لگتے ہوں۔‘‘

جنہوں نے افغانستان دیکھا ہی نہیں وہ افغان مہاجرین واپس کیسے جائیں؟

نعیم لودھی کے مطابق تاہم صرف یہی نہیں کہا جا سکتا کہ صرف افغان مہاجرین ہی اس کے ذمہ دار ہیں: ''ہمارے اپنے بھی کئی لوگ دہشت گردی میں ملوث رہے ہیں اور ہم نے ان کو سزائیں بھی دی ہیں تو افغان مہاجرین ایک وجہ ہو سکتے ہیں لیکن مکمل وجہ نہیں ہے۔‘‘