1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تعليمبرطانیہ

غیر ملکی طلبہ کی کمی سے کئی برطانوی یونیورسٹیاں خطرے میں

18 مئی 2024

برطانیہ میں بیرونی ممالک سے آنے والے بین الاقوامی طلبہ کی تعداد میں کمی ملکی یونیورسٹیوں کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہے اور ایسے کچھ اعلیٰ تعلیمی ادارے تو اس وجہ سے تنزلی اور ناکامی کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4g0ws
برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی جس کی بنیاد سن بارہ سو نو میں رکھی گئی تھی
برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی جس کی بنیاد سن بارہ سو نو میں رکھی گئی تھیتصویر: Richie - sa

برطانوی دارالحکومت لندن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق یہ تنبیہ ماہرین کی ایک ایسی تازہ رپورٹ میں کی گئی ہے، جو لندن حکومت کے ایما پر تیار کی گئی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برطانیہ میں اگلے تعلیمی سال سے حصول تعلیم کے لیے جن غیر ملکی طلبہ نے اپنی رجسٹریشن کرائی ہے، ان کی تعداد میں گزشتہ تعلیمی سال کے مقابلے میں واضح کمی ہوئی ہے۔

طلبہ کا رخ امریکا اور برطانیہ کی بجائے جرمنی کی طرف

اس پس منظر میں اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برطانوی یونیورسٹیوں کی بین الاقوامی ساکھ کے تسلسل اور ایسے کئی اداروں کی تنزلی سے بچنے کے لیے لازمی ہے کہ حکومت اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ آنے والے غیر ملکی طلبا و طالبات کی تعداد کو محدود کر دینے والے مزید کوئی اقدامات نہ کرے۔

موجودہ حکومت کے اقدامات

دنیا بھر کے مختلف ممالک سے باوسائل افراد کے اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ کا رخ کرنے کی بین الاقوامی روایت مدتوں پرانی ہے۔ اس عمل کو وزیر اعظم رشی سوناک کی قیادت میں موجودہ ملکی حکومت کی طرف سے کیے گئے اقدامات سے نقصان پہنچا ہے۔

کوہ سلیمان سے دریافت ہونے والا معیاری نینو  کلے پینے کے پانی کو صاف کرنے کا اہم ذریعہ

کیمبرج میں مشہور زمانہ کنگز کالج کی ایک تصویر
کیمبرج میں مشہور زمانہ کنگز کالج کی ایک تصویرتصویر: Slawek Staszczuk/Loop Images/picture alliance

مثال کے طور پر رشی سوناک کی حکومت نے طبی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں اور کم تنخواہ والے ورکرز کے روزگار کے لیے برطانیہ آنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کرنے کے ساتھ ساتھ اب یہ امر بھی مشکل بنا دیا ہے کہ دیگر ممالک سے پوسٹ گریجویشن کے لیے برطانیہ آنے والے طلبا و طالبات اپنے اہل خانہ کو بھی ساتھ لا سکیں۔

دنیا کی چند مشہور ترین یونیورسٹیاں برطانیہ میں ہیں، جن میں آکسفورڈ اور کیمبرج بھی شامل ہیں اور امپیریل کالج لندن جیسے عالمی سطح پر شہرت یافتہ ادارے بھی۔

کیمبرج یونیورسٹی میں ’دنیا کی سب سے میٹھی نوکری‘

بین الاقوامی سطح پر کامیاب بڑی بڑی کاروباری شخصیات کے بقول یہ برطانوی تعلیمی ادارے جدت اور تخلیقی عمل کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور اپنے طلبہ کو ایک طرح کی 'سافٹ پاور‘ مہیا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی دنیا کے کئی ممالک کے بہت سے رہنما ایسے ہی اعلیٰ برطانوی اداروں کے تعلیم یافتہ ہیں۔

مائیگریشن ایڈوائزری کمیٹی کی رپورٹ

برطانوی حکومت کے لیے یہ رپورٹ مائیگریشن ایڈوائزری کمیٹی نامی اس ادارے نے تیار کی ہے، جو ایک غیر جانبدار ادارے کے طور پر لندن حکومت کی مشاورت کرتا ہے۔

لندن کا امپیریل کالج بھی برطانیہ کا دنیا بھر میں مشہور تعلیمی ادارہ ہے
لندن کا امپیریل کالج بھی برطانیہ کا دنیا بھر میں مشہور تعلیمی ادارہ ہےتصویر: Photoshot/picture alliance

یونان میں اب نجی غیر ملکی یورنیورسٹیاں بھی، نیا قانون منظور

مائیگریشن ایڈوائزری کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس سال ستمبر میں برطانوی یونیورسٹیوں میں اپنی اعلیٰ تعلیم شروع کرنے کے لیے رقوم جمع کرانے والے انٹرنیشنل پوسٹ گریجویٹ طلبا و طالبات کی تعداد گزشتہ برس کے مقابلے میں 63 فیصد کم ہو گئی ہے۔ اس کی وجہ زیادہ تر برطانوی حکومت کی طرف سے تعلیمی ویزوں پر لگائی جانے والی نئی پابندیاں اور شرائط بنیں۔

برطانیہ میں غیر ملکی طلبہ کو حصول تعلیم کے بعد دو سال تک وہاں کام کرنے کی اجازت بھی دے دی جاتی ہے۔ اس طریقہ کار کو گریجویٹ روٹ کہتے ہیں۔

جرمنی میں نجی یونیورسٹیوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت

مائیگریشن ایڈوائزری کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ حکومت کی طرف سے گریجویٹ روٹ پر لگائی جانے والی مزید پابندیوں سے نہ صرف روزگار کے مواقع ختم ہو جائیں گے اور کئی تعلیمی کورس بند کرنا پڑیں گے بلکہ اس طرح ''چند تعلیمی اداروں کی ناکامی کا خطرہ‘‘ بھی پیدا ہو جائے گا۔

وزیر اعظم رشی سوناک کے ایک ترجمان کے مطابق حکومت اس رپورٹ کے مندرجات کا جائزہ لینے کے بعد ہی اس پر اپنا ردعمل ظاہر کرے گی۔

م م / ع ا (روئٹرز)