غیرت کے نام پر نہر میں پھینکی گئی گولی لگی خاتون سلامت
5 جون 2014اِس طرح لاہور ہائیکورٹ کے باہر ایک حاملہ خاتون کو پسند کی شادی کرنے پر اینٹیں مار مار کر ہلاک کیے جانے کے ہولناک واقعے کے چند ہی روز بعد اُسی طرح کا ایک اور واقعہ رونما ہو گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق صبا قیصر نام کی اِس لڑکی کی عمر بیس برس کے قریب ہے۔ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے پولیس اہلکار سبط خان نے کہا کہ اِس لڑکی پر اُس کے والد، بھائی اور خاندان کے دو دیگر ارکان نے فائرنگ کی۔ پھر یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ لڑکی مر چکی ہے، اِسے ایک بوری میں بند کر کے نہر جھنگ برانچ میں پھینک دیا گیا تاہم یہ لڑکی معجزانہ طور پر بچ گئی ہے۔
بتایا گیا ہے کہ کچھ مقامی افراد نے اِس شدید زخمی لڑکی کی مدد کی اور اِسے گزشتہ شب آدھی رات کے بعد ایک ہسپتال پہنچا دیا، جہاں اب اُس کی حالت مستحکم بتائی جاتی ہے۔
ڈی پی اے کے مطابق صبا قیصر کے گھر والے پسند کی شادی کرنے پر اُس سے سخت ناراض تھے۔ صبا نے گزشتہ ہفتے اپنے باپ اور بھائیوں کی مرضی کے بغیر اپنے ایک قریبی عزیز محمد قیصر کے ساتھ عدالت میں جا کر شادی کر لی تھی۔
ایک اور پولیس اہلکار ظفر اقبال نے ڈی پی اے سے باتیں کرتے ہوئے بتایا کہ ایک گولی صبا کے چہرے کو چیرتی ہوئی نکل گئی جبکہ دوسری گولی اُسے اُس کے ہاتھ پر لگی۔ ظفر اقبال کے مطابق اب ہسپتال میں صبا کا علاج کیا جا رہا ہے اور اُس کی حالت بہتر ہے۔
پولیس اہلکار سبط خان کے مطابق پولیس نے صبا کے والد مقصود احمد اور چچا اشفاق محمود کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ باقی دو ملزمان، جن میں صبا کا بھائی فیصل بھی شامل ہے، کی تلاش جاری ہے۔
حقوقِ نسواں کے لیے سرگرم تنظیم ’عورت فاؤنڈیشن‘ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال ایک ہزار پانچ سو خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ وکلاء کا کہنا ہے کہ اس طرح کے جرائم میں ملوث ملزمان ایسے فرسودہ اور پیچیدہ قوانین کا فائدہ اٹھا کر سزا سے بچ نکلتے ہیں، جن میں قتل ہونے والی خواتین کے گھر والے قاتلوں کو معاف کر دیتے ہیں۔
ابھی مئی کے اواخر میں لاہور ہائیکورٹ میں سید والا کی پچیس سالہ حاملہ خاتون فرزانہ پروین کو اُس کے گھر والوں نے جس بے دردی سے ہلاک کر دیا تھا، اُس پر پوری دُنیا میں غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔ دریں اثناء اکتیس مئی کے اس سانحے کے کئی ذمے دار گرفتار کیے جا چکے ہیں۔