1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہفرانس

فرانس میں تیرہ سال سے کم عمربچوں کے رات کو باہرنکلنے پرکرفیو

24 اپریل 2024

فرانس کے دائیں بازو کے ایک میئر نے نوجوانوں میں مبینہ تشدد کے واقعات کی روک تھام کے لیے تیرہ برس سے کم عمربچوں پرایک محدود مدت تک کے لیے رات کے اوقات میں کرفیو کے نفاذ کا اعلان کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4f8ty
سرکاری احکامات میں بتایا گیا ہے کہ اس اقدام کا مقصد شہری تشدد اور چوری کے واقعات کی روک تھام ہے
سرکاری احکامات میں بتایا گیا ہے کہ اس اقدام کا مقصد شہری تشدد اور چوری کے واقعات کی روک تھام ہےتصویر: Thibaut Durand/ABACA/picture alliance

فرانس میں مبینہ تشدد کے واقعات کی روک تھام کے لیے ایک دائیں بازو کے سیاستدان اور میئر نے تیرہ سال سے کم عمر بچوں کے رات کے اوقات میں گھروں سے باہر نکلنے پر کرفیو لگا دیا ہے۔

ماضی میں بھی کئی فرانسیسی شہروں میں محدود مدت کے لیے رات کے اوقات میں بچوں پر ایسے ہی کرفیو لگائے گئے تھے۔

 جون میں ہونے والے یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات سے پہلے فرانس میں نوجوانوں میں تشدد ایک نمایاں سیاسی موضوع بن گیا ہے، کیونکہ انتہائی دائیں بازو کی قومی ریلی  پولنگ میں صدر ایمانوئل ماکروں کی سینٹرسٹ پارٹی سے آگے نکل رہی ہے۔

فرانس کے اسکول میں تشدد کا واقعہ، نوجوان ہلاک

حکومت نے گزشتہ ہفتے فرانس کے سمندر پار علاقوں میں سے ایک میں اسی طرح کے اقدام کا حکم دیا تھا۔ جنوبی قصبے بیزیئر کے انتہائی دائیں بازو کے آزاد میئر رابرٹ مینار نے پیر کے روز تین محلوں میں تیرہ سال سے کم عمر نوجوانوں کو رات گیارہ بجے سے صبح چھ بجے تک، تیس ستمبر تک گھروں میں رہنے کا حکم دیا ہے ، وہ کسی بالغ کے بغیر ان اوقات میں باہر نہیں نکل سکتے۔

سرکاری احکامات میں بتایا گیا ہے کہ اس اقدام کا مقصد شہری تشدد اور چوری کے واقعات کی روک تھام ہے، لیکن اس حوالے سے خبررساں ادارے اے ایف پی کو کوئی اعدادوشمار فراہم نہیں کیے گئے۔ رواں برس وزارت داخلہ کی شائع کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق تیرہ سال سے کم عمر افراد میں صرف دو فیصد پر ہی کسی کے خلاف تشدد کا الزام تھا، اور محض ایک فیصد پرہی چوری کے دوران تشدد کی رپورٹ درج ہوئی تھی۔

ماضی میں بھی کئی فرانسیسی شہروں میں محدود  مدت کے لیے رات کے اوقات میں بچوں پر ایسے ہی کرفیو لگائے گئے تھے
ماضی میں بھی کئی فرانسیسی شہروں میں محدود مدت کے لیے رات کے اوقات میں بچوں پر ایسے ہی کرفیو لگائے گئے تھےتصویر: Nathan Laine/Hans Lucas/imago images

فرانس: حجاب کے تنازعے پر طالبہ کے خلاف مقدمہ چلانے کا فیصلہ

مینار نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ فرانس میں تیرہ سال سے کم عمر بچوں کو ''ججوں کے سامنے نہیں لایا جاتا اورنہ ہی انہیں سزا دی جاتی ہے ۔‘‘ حقیقت میں ایسے کم عمر بچوں کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا ہے لیکن نوجوانوں کی عدالتیں ان کی عمر اور کم فیصلے کو اپنی کارروئیوں کے دوران مدنظر رکھتی ہیں۔

سن دوہزار اٹھارہ میں ملک کی اعلیٰ ترین انتظامی عدالت نے چار سال قبل مینار کی طرف سے جاری کردہ اسی طرح کے حکم کو کالعدم قرار دے دیا تھا کیونکہ وہ '' تیرہ سال سے کم عمر کے نابالغوں سے متعلق مخصوص خطرات کی موجودگی کے ٹھوس شواہد فراہم کرنے میں ناکام رہے۔‘‘

ماکروں کی پارٹی کو یورپی انتخابات سے قبل عوامی ریلیوں کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان کی حکومت نے حالیہ ہفتوں میں نوجوانوں کے تشدد پر سخت موقف رکھنے کا اظہار کیا ہے۔ وزیر داخلہ جیرالڈ ڈرمینین نے جمعرات کو اس ہفتے تا اگلے دو ماہ اٹھارہ سال سے کم عمر کے تمام بچوں کو گواڈیلوپ کے سمندر پار علاقے کے ایک شہر میں رات آٹھ بجے سے گھر میں رہنے کا حکم دیا۔

تیرہ سال سے کم عمر نوجوانوں کو رات گیارہ بجے سے صبح چھ بجے تک، تیس ستمبر تک گھروں میں رہنے کا حکم دیا ہے
تیرہ سال سے کم عمر نوجوانوں کو رات گیارہ بجے سے صبح چھ بجے تک، تیس ستمبر تک گھروں میں رہنے کا حکم دیا ہےتصویر: Naseer Turkmani/AA/picture alliance

فرانس میں صدر ماکروں کا ’مرنے میں مدد‘ کے مجوزہ قانون کا اعلان

اُدھر پوئنٹے پیٹر کے میئر نے دعویٰ کیا کہ شہر میں جرائم کرنے والوں میں اڑتیس فیصد نابالغ افراد شامل تھے۔ جنوبی شہر نیس کے مرکز سے دائیں بازو کی طرف جھکاؤ والے میئر کرسچن ایسٹروسی نے BFM ٹیلی ویژن کو بتایا کہ وہ اپنے 300,000 سے زیادہ آبادی والے شہر میں 13 سال سے کم عمر افراد کے لیے اسی طرح کا کرفیو نافذ کرنے پر غور کر رہے ہیں۔

 ایف ایس یو Fédération Syndicale Unitaire فرانس کی سب سے بڑی ٹیچرز یونین فیڈریشن ہے۔ اس یونین کے جنرل سکریٹری بینوئے ٹیس نے کہا کہ وہ فکر مند ہیں کہ حکومت دائیں بازو کے بہت زیادہ  خیالات کو اپناتے ہوئے انہیں نافذ کررہی ہے۔ انہوں نے کہا،''یہ تمام رجعتی اقدامات سیدھے دائیں طرف سے آتے ہیں، وہ اپنے پٹھے دکھا رہے ہیں، ہر چیز جابرانہ طریقے سے کر رہے ہیں اور ہتک آمیز تقریریں کر رہے ہیں۔‘‘

ف ن/ ک م (اے ایف پی)

فرانس کا ایک کميونٹی سينٹر ملالہ یوسفزئی سے منسوب