فرانس کی طرح جرمنی کی سڑکوں پر بھی فوج کے پہرے؟
11 اگست 2016فرانس میں مسلسل ہولناک دہشت گردانہ حملوں کے بعد وہاں کی سڑکوں پر مسلح فوجیوں کی موجودگی اب ایک معمول کی بات ہو چکی ہے تاہم اگر جرمنی کی سڑکوں پر فوجی گشت کا فیصلہ ہوتا ہے تو دوسری عالمی جنگ کے بعد ایسا پہلی مرتبہ دیکھنے میں آئے گا۔
جب جولائی میں میونخ میں ایک اٹھارہ سالہ نوجوان نے اندھا دھند فائرنگ شروع کی تو جرمنی کی خاتون وزیر دفاع اُرزولا فان ڈیئر لاین نے ملکی افواج کو بھی چوکس رہنے کا حکم دے دیا تھا تاہم اس سے پہلے کہ یہ فوجی سڑکوں پر نکلتے، نو افراد کو موت کے گھاٹ اُتارنے والے حملہ آور نے خود کُشی کر لی تھی۔ جرمن وزیر دفاع کے احکامات پر البتہ کئی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔
اس کے بعد پے در پے مزید دہشت گردانہ حملوں کے بعد جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے جو نو نکاتی منصوبہ پیش کیا، اُس میں بڑے دہشت گردانہ حملوں کی صورت میں فوج بلانے کا بھی ذکر کیا گیا تھا۔ اس کے فوراً بعد ہی خاتون وزیر دفاع نے اس امر کی تصدیق کر دی کہ فوج اور پولیس کے سپاہی مشترکہ مشقوں کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔
ملک کے اندر فوج کو سرگرمِ عمل کرنے کی تجویز ایک شدید جذباتی بحث مباحثے کا باعث بنی ہے کیونکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کے جرمن آئین میں ملک کے اندر اور باہر کام کرنے والی سکیورٹی فورسز کے مابین واضح فرق کیا گیا ہے۔ اس آئین میں کہا گیا ہے کہ استثنائی حالات مثلاً قدرتی آفات وغیرہ کو چھوڑ کر کبھی بھی جرمن فوج کو ملک کے اندر سرگرمِ عمل نہیں کیا جا سکے گا۔
جہاں مختلف قدامت پسند سیاستدان وقتاً فوقتاً اس تجویز کی حمایت کرتے رہتے ہیں، وہاں جرمن عوام کی ایک بڑی تعداد اس تجویز کی مخالفت کر رہی ہے۔ جرمن ہفت روزہ جریدے ’دی سائٹ‘ کے ایک سروے میں چھیاسٹھ فیصد جرمن باشندوں نے کہا کہ ملک کے اندر فوجیوں کی تعیناتی کوئی اچھی بات نہیں ہو گی۔
مخلوط حکومت میں شامل سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین زیگمار گابریئل کے خیال میں بھی فوج کو سرگرم کرنے کی بجائے پولیس کو زیادہ تعاون اور اختیارات دیے جانے چاہییں۔ خود پولیس بھی فوج کی مدد لینے سے گریزاں لگتی ہے مثلاً پولیس یونین GdP کے چیئرمین اولیور مالخوف کے مطابق فوج وہ مدد نہیں دے سکتی، جو پولیس کو درکار ہے: ’’ہمیں تفتیش کاروں کی ضرورت ہے، ہمیں ایسے پولیس اہلکار درکار ہیں، جنہیں آئین کی ضرورتوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے تربیت فراہم کی گئی ہو۔‘‘