فرانسیسی شہر کن میں برقعے کے بعد اب ’برقینی‘ پر بھی پابندی
12 اگست 2016فرانس میں حکام کے مطابق فرانسیسی شہر کن کے مئیر ڈیوڈ لزنارڈ نے ایک قانون پر دستخط کرتے ہوئے تیراکی کے ایک مخصوص لباس پر پابندی عائد کر دی ہے جسے عموما مسلمان خواتین پہنتی ہیں۔ اس حکم نامے میں تحریر ہے کہ ساحلوں پر ایسے افراد کا جانا ممنوع ہو گا جو تیراکی کے لیے ایسا لباس پہنے ہوئے ہوں جو سیکولرزم اور مذہبی اعتدال پسندی کے منافی ہو۔ اس قانون کے مطابق کن کے ساحلوں پر سوئمنگ کے بعض لباسوں پر پابندی سیکیورٹی خدشات کے باعث عائد کی گئی ہے۔ اس فرمان میں مزید کہا گیا ہے،’’ ایسے حالات میں جبکہ فرانس اور عبادت گاہیں دہشت گردانہ حملوں کا ہدف بنی ہوئی ہیں، ایسے لباس پہننا جن سے مذہبی وابستگی جھلکتی ہو، نقص امن کا باعث ہو سکتا ہے جسے روکنا ضروری ہے۔‘‘ ایک فرانسیسی اہلکار نے بتایا ہے کہ اس قانون پر عمل در آمد اسی ماہ سے شروع ہو جائے گا اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے کو اڑتیس یورو جرمانہ ہو گا۔ کن میں میونسپل سروسز کے سربراہ نے البتہ اس رولنگ کے حوالے سے کہا ہے،’’کن میں مذہبی علامتی لباس پہننے پر پابندی نہیں ہے۔ بلکہ نئے قانون میں ایسا لباس پہننے پر بین لگایا گیا ہے جو ان دہشت گرد تحریکوں سے وابستگی ظاہر کریں جن سے ہم حالت جنگ میں ہیں۔‘‘
فرانس میں سلسلہ وار دہشت گردانہ حملوں کا سلسلہ جاری ہے جن میں سے دو حملے رواں موسم گرما میں ہوئے ہیں۔ گزشتہ ماہ کی چھبیس تاریخ کو جہادی گروپ اسلامک سٹیٹ سے تعلق رکھنے والے دو حملہ آوروں نے شمال مغربی فرانس میں ایک پادری کو قتل کر دیا تھا۔ اس سے قبل چودہ جولائی کو فرانس کے جنوبی شہر نِیس میں قومی دن کی تقریبات کے موقع پر ایک تیز رفتار ٹرک نے ہجوم کو کچل دیا تھا اور اس دہشت گردانہ کارروائی کے نتیجے میں پچاسی افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری اسلامک سٹیٹ نے قبول کی تھی۔ فرانس میں پہلے ہی سے چہرے پر مکمل نقاب کے استعمال پر پابندی ہے تاہم لوگوں پر مذہب سے منسوب اشیاء اور لباس پہننے پر پابندی عائد نہیں کی گئی ہے۔