فضائی حملوں کی تحقیقات میں پاکستان تعاون نہیں کر رہا، پینٹاگون
3 دسمبر 2011پینٹا گون کی طرف سے جمعہ کو جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق پاکستانی حکومت اُس امریکی تحقیقاتی ٹیم کے ساتھ تعاون کرنے پر رضامند نہیں ہے، جو مہمند ایجسنی میں واقع دو سرحدی چوکیوں پر نیٹو کے فضائی حملوں کے بارے میں حقائق اکٹھا کر رہی ہے۔ پاکستانی فوج کے مطابق گزشتہ ہفتہ کے روز کیے گئے اس حملے میں اس کے چوبیس فوجی مارے گئے تھے۔
پینٹا گون کے ترجمان جارج لِٹل کے بقول اسلام آباد حکومت سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اس افسوسناک واقعے کے بارے میں حقائق جمع کرنے کے لیے امریکی تفتیشی ٹیم کا ساتھ دے تاہم اسلام آباد نے ابھی تک اس کا کوئی جواب نہیں دیا، ’ہم اس حوالے سے پاکستانی حکام کے تعاون کو خوش آمدید کہیں گے‘۔
اس سے پہلے امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستانی فوج نے اس حملے کی اجازت دی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستانی فوج کو علم نہیں تھا کہ اس علاقے میں پاکستانی فوجی موجود ہیں۔ تاہم جمعہ کو پینٹاگون میں ہونے والی ایک پریس کانفرنس کے دوران امریکی افواج کے ترجمان جان کیربی نے اس رپورٹ کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔ پاکستان نے ان خبروں کو مسترد کر دیا ہے۔
خبر ایجنسی روئٹرز نے پاکستانی فوجی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستانی فوج نے نیٹو کو حملے کے لیے کوئی گرین سگنل نہیں دیا تھا۔
ایک اور پیشرفت میں پاکستانی افواج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے قومی سرحدی علاقوں میں تعینات ملکی سکیورٹی دستوں کے کمانڈرز کو اجازت دے دی ہے کہ وہ مستقبل میں ایسے کسی ممکنہ حملے کی صورت میں جوابی کارروائی ضرور کریں۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس اجازت کے بعد اب پاکستانی فوجیوں کو مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی طرف سے کسی بھی ممکنہ حملے کی صورت میں پہلے اعلیٰ فوجی قیادت سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہو گی۔
اس واقعے کے بعد سے امریکہ اور پاکستان کے مابین پہلے سے کشیدہ تعلقات میں مزید تناؤ نمایاں ہو چکا ہے۔ اس کی ایک تازہ مثال پاکستان کا افغانستان کے بارے میں جرمن شہر بون میں پیر کو ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت سے انکار ہے۔ جمعہ کو پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا کہ بون کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا پاکستانی فیصلہ اٹل ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: مقبول ملک