فلسطینی صدر محمود عباس کی جرمن چانسلر سے ملاقات
2 فروری 2010اِس موقع پر میرکل نے قیامِ امن کے عمل پر زور دیا اور کہا کہ اِس عمل کا نصب العین دو ریاستی حل ہونا چاہیے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا کہ ایک یہودی ریاست اسرائیل کے ساتھ ساتھ اپنی محفوظ سرحدوں کے اندر ایک فلسطینی ریاست بھی ہو اور یوں مشرقِ وُسطےٰ میں دو ریاستیں پُر امن بقائے باہمی کی بنیاد پر وجود میں آنی چاہییں۔ میرکل نے کہا، " دونوں فریق جانتے ہیں کہ بات چیت کرنا ضروری ہے اور دو ریاستی حل اُن دونوں کے مفاد میں ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ کیسے قابلِ قبول شرائط کے ساتھ یہ مذاکرات شروع کئے جا سکتے ہیں۔ میرے خیال میں اسرائیل اس طرح کے مذاکرات کے بارے میں مثبت رویہ رکھتا ہے اور اگر فلسطینی بھی اِسی نتیجے پر پہنچتے ہیں تو یہ ایک اچھی بات ہو گی۔‘‘ میرکل کے مطابق وہ اور محمود عباس دونوں اِس بات پر متفق ہیں کہ قیامِ امن کے عمل کو پھر سے حرکت میں لانے کی ضرورت ہے۔
محمود عباس نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے مغربی اُردن میں یہودی بستیوں کی تعمیر کو ایک مخصوص عرصے کے لئے بھی روکے جانے کی صورت میں فلسطینی اسرائیل کے ساتھ بات چیت کے لئے تیار ہیں، ’’روڈ میپ میں درج کئے گئے اصول اولمرٹ حکومت کے دَور میں بھی ہمارے اور امریکہ اور اسرائیل کے درمیان گفتگو کا موضوع رہے۔ ہم اُمید کرتے ہیں کہ اِس روڈ مَیپ کی بنیاد پر مذاکرات آگے بڑھائے جا سکتے ہیں۔ جورج مچل کی جانب سے پروکسی مِٹی ٹاکس کہلانے والے ان مذاکرات سے متعلق ایک تجویز ہے، جسے جانچنے کا ہم نے وعدہ کیا ہے۔ ہم اپنے دوستوں اور احباب کے ساتھ تبادلہء خیال کریں گے اور اب سے ٹھیک ایک ہفتے بعد اِس بارے میں کوئی جواب دیں گے۔‘‘
امریکہ بھی اب تک اصرار کر رہا تھا کہ یہودی بستیوں کی تعمیر مستقل طور پر روکی جانی چاہیے۔ تاہم اسرائیل کی طرف سے یہ مطالبات رَد کئے جانے کے بعد اب فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ امریکہ بھی امن مذاکرات کے لئے بستیوں کی تعمیر کی مستقل بندش کے مطالبے میں نرمی پیدا کرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔
رپورٹ : امجد علی
ادارت : کشور مُصطفیٰ