فلسطینیوں کی جانب سے ’یوم غضب‘
8 دسمبر 2017امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یروشلم کو باقاعدہ طور پر اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے اعلان پر دنیا بھر میں تنقید جاری ہے۔ فلسطین کے مختلف علاقوں میں بھی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ فیڈریکا موگیرینی نے ٹرمپ کے اس اعلان پر اپنے سخت ردعمل میں کہا، ’’یہ وہ فیصلہ ہے، جو اس پورے خطے کو تاریک زمانوں سے بھی پیچھے دھکیل دے گا۔‘‘
ٹرمپ کا فیصلہ: پاکستان میں غم و غصے کی لہر
امریکی پالیسی میں تبدیلی ’اعلان جنگ‘ ہے، حماس
یروشلم کے حالات پر فکر مند ہوں، پوپ فرانسس
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ کا یہ فیصلہ درست نہیں اور اس کی مخالفت کی جائے گی۔
ادھر ایک اعلیٰ فلسطینی عہدیدار نے جمعرات کے روز اپنے بیان میں کہا ہے کہ امریکی نائب صدر مائیک پینس کو ’فلسطین میں خوش آمدید نہیں‘ کہا جائے گا۔ اس کے جواب میں وائٹ ہاؤس کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اگر مائیک پینس اور فلسطینی صدر محمود عباس کے درمیان رواں ماہ کے اختتام پر طے شدہ ملاقات نہ ہوئی تو اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے اس اعلان کے بعد جمعرات کو فلسطینیوں اور اسرائیلی فورسز کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ اسرائیل نے مغربی کنارے میں اضافی فوجی تعینات کر دیے ہیں تاکہ کسی بھی غیرمتوقع صورت حال سے نمٹا جا سکے۔
ٹرمپ کے اس بیان پر دنیا کے قریب تمام ممالک تنقید کر رہے ہیں، تاہم اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے صدر ٹرمپ کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا نام یروشلم کی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ نیتن یاہو نے دیگر ممالک سے بھی استدعا کی کہ وہ صدر ٹرمپ کے پیروی کریں۔
دوسری جانب حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ نے غزہ میں اپنے ایک خطاب میں ’نیا انتفادہ‘ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق گزشتہ روز غزہ سے متعدد راکٹ بھی اسرائیلی علاقوں کی جانب داغے گئے، جس کے جواب میں اسرائیلی بری اور فضائی فورسز نے غزہ کے خلاف کارروائی کی۔ بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے دو مقامات پر حماس کی پوزیشنوں کو نشانہ بنایا۔
جمعے کے روز مغربی کنارے اور غزہ میں بڑے مظاہرے جاری ہیں، جب کہ متعدد مقامات پر جھڑپوں میں کم از کم 22 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔