فن قوالی کے بادشاہ نصرت فتح علی کی انیسویں برسی
16 اگست 2016نصرت فتح علی کو والد استاد فتح علی خان اور چچا استاد مبارک علی خان جیسے نامور قوالوں کی تربیت میسر آئی ۔ ملکی اور عالمی سطح پر اپنے فن کا لوہا منوایا اور بے پناہ شہرت حاصل کی۔ سن انیس سو پچاسی میں ’ ورلڈ آف میوزک اینڈ آرٹ فیسٹیول ‘ میں شرکت کے بعد نصرت فتح علی کو عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی لیکن موسیقار پیٹر گیبریل کے ساتھ کام کیا تو ایک دنیا اُن کے آواز و انداز کی گرویدہ ہو گئی۔ گیبریل نے سن انیس سو اٹھانوے میں ہالی ووڈ فلم ’لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرائسٹ‘ کا صوتی ٹریک بنایا اور اس کے لیے استاد نصرت فتح علی خان کا الاپ استعمال کیا۔
نصرت فتح علی خان نے ایک مرتبہ ڈی ڈبلیو کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا،’’ میرے والد کی خواہش تھی کہ میں فن موسیقی سے آگاہی تو ضرور حاصل کروں لیکن اس کو پیشے کے طور پر نہ اپناؤں، وہ مجھے ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے۔‘‘
آج استاد نصرت فتح علی خان کی انیسویں برسی کے موقع پر دنیا بھر میں ان کے مداح انہیں خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔
استاد نصرت فتح علی کا خاصہ فن قوالی میں مشرق و مغرب کی موسیقی کا وہ ملاپ تھا جس پر اردو اور پنجابی زبانوں سے نا آشنا یورپ اور امریکا کے باشندے بھی رات رات بھر سر دھنا کرتے تھے۔ نصرت کی وفات پر پیٹر گیبریل نے کہا،’’ نصرت فتح کی موت سے نہ صرف دنیا ایک غیر معمولی فنکار سے محروم ہو گئی بلکہ میں نے ایک بہت عزیز دوست بھی کھو دیا۔ میں نے کبھی کسی اور آواز میں اتنی روحانی توانائی محسوس نہیں کی۔‘‘
برصغیر کی معروف گلوگارہ لتا منگیشکر نے ان کی وفات کے فوری بعد ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا،’’ میں یہ سمجھتی ہوں کہ نصرت صاحب کی موت سے دنیائے موسیقی کو بہت نقصان ہوا ہے۔ وہ اپنے ملک میں ہی نہیں ہمارے ہاں بھی بہت زیادہ مقبول تھے۔ نصرت صاحب نے ایک فلم کی موسیقی ترتیب بھی دی تھی جس کے گیت مجھے گانا تھے، لیکن میں کسی مصروفیت کی وجہ سے وہ گیت نہ گا سکی، جس کا مجھے عمر بھر افسوس رہے گا۔‘‘
بھارت کے معروف فلم کہانی نویس اور نغمہ نگار جاوید اختر نے ان کو موت پر کچھ یوں خراج عقیدت پیش کیا تھا،’’ نصرت فتح علی خان کے ساتھ مجھے ایسا لگا کہ میں خدا کے قریب ہو گیا ہوں۔‘‘