1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فن لینڈ شام میں محصور ’بچوں کے حقوق کی پامالی کا مرتکب‘

16 اکتوبر 2022

اقوام متحدہ کی کمیٹی کے مطابق فن لینڈ ذمہ داری کے باوجود مشتبہ جہادیوں کے شامی کیمپوں میں محصور بچے واپس نہیں لارہا۔ عالمی ادارے کے مطابق شام کے الہول کیمپ میں صرف اٹھارہ ماہ میں ایک سو سے زائد لوگ قتل ہوئے۔

https://p.dw.com/p/4I5eY
Syrien Camp Roj
تصویر: Delil Souleiman/AFP/Getty Images

 اقوام متحدہ کے بچوں کے حقوق سے متعلق ایک نگران ادارے نے کہا ہے کہ فن لینڈ نے مشتبہ جہادیوں کے اہل خانہ کے لیے شامی کیمپوں میں برسوں تک جان لیوا حالات میں رہنے والے بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔اقوام متحدہ کی بچوں کے حقوق کی کمیٹی نےبدھ کے روز اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ فن لینڈ کی یہ ذمہ داری اوراختیار ہے کہ وہ شامی کیمپوں میں موجود اپنے شہریوں کے بچوں کی زندگیوں کو لاحق خطرات سے بچا کر ان کی وطن واپسی کے لیے اقدامات کرے۔

ان شامی کیمپوں میں پھنسے فرانسیسی بچوں کے بارے میںفرانس کی ذمہ داری سے متعلق ایک سابقہ فیصلےکی بازگشت سنائی دینے والے اس کمیٹی کے نتائج میں کہا گیا ہے، ''جان لیوا حالات میں متاثرہ بچوں کو طویل عرصے تک حراست میں رکھنا غیر انسانی اور ذلت آمیز سلوک یا سزا کے مترادف ہے۔‘‘

Syrien Bildung trotz Gefahr
شام کے مختلف کیمپوں میں دہشتگرد تنظیم داعش کے مشتبہ دہشتگردوں کے ہزاروں بچے نامساعد حالات میں رہنے پر مجبور ہیںتصویر: Xinhua News Agency/picture alliance

اقوام متحدہ کی اس کمیٹی کے 18 آزاد ماہرین کو بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن پر عمل درآمد کی نگرانی کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔ ان ماہرین  نے شام کے شمال مشرق میں قائم الہول کیمپ میں مقیم  فن لینڈ سے تعلق رکھنے والے چھ بچوں کی جانب سے دائر مقدمے پر غور کے بعد یہ نتائج جاری کیے۔ ان بچوں کے رشتہ داروں نے 2019 ء میں اس معاملے کو کمیٹی کے سامنے لایا تھا۔ اس کےبعد سے تین بچے اپنی والدہ کے ساتھ کیمپ چھوڑنے میں کامیاب ہونے کے بعد آخر کار فن لینڈ واپس آ چکے ہیں ۔

اسلامک اسٹيٹ کے جرمن جہادی والدين کے بچوں کی جرمنی آمد

 کمیٹی کا کہنا تھا کہ بقیہ تین بچوں کی عمریں اس وقت پانچ سے چھ سال کے درمیان ہیں اور وہ اب بھی جنگی صورتحال والے علاقے میں قائم کیمپوں میں قید ہیں۔  ان بچوں کے رشتہ داروں کی جانب سے دائر درخواست میں فن لینڈ کے  33 دیگر بچوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے جنہیں کیمپ میں قانونی امداد تک رسائی حاصل نہیں ہے۔

Libanon Kind aus Syrien im Flugzeug
البانیہ کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے، جو شامی کیمپوں میں محصوراپنے شہریوں کے بچوں کو وطن واپس لے گئےتصویر: Bilal Hussein/AP Photo/picture alliance

 الہول میں چھپن ہزار لوگ موجود ہیں اور یہ  اس خطے کے متعدد کیمپوں میں سے سب سے بڑا کیمپ ہے ۔ اس کیمپ میں خواتین اور بچوں سمیت مشتبہ جہادیوں کے رشتہ دار مقیم ہیں۔ ان پناہ گزینوں میں زیادہ تر شامی یا عراقی ہیں، لیکن ایک اندازے کے مطابق 10ہزار کا تعلق دنیا کے دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے دولت اسلامیہ یا داعش کے جنگجوؤں کی بیویاں اور بچے ہیں۔ ان میں ے بہت سے اب بھی انتہائی بنیاد پرست سمجھے جاتے ہیں۔

ڈنمارک کے جہادیوں کے بیرون ملک پیدا ہونے والے بچے، ڈینش نہیں

کہا گیا ہے کہ مغربی ممالک سے بارہا اپنے شہریوں کو وطن واپس لے جانے کے مطالبات کیے گئے ہیں، تاہم ان ملکوں کی جانب سے ان مطالبات پر دھیان نہیں دیا جا رہا۔ کمیٹی کی ایک رکن این اسکیلٹن نے خبردار کیا کہ کیمپوں میں بچوں کی صورت حال کو بڑے پیمانے پر غیر انسانی قرار دیا گیا ہے، پانی، خوراک اور صحت کی دیکھ بھال سمیت بنیادی ضروریات کا فقدان ہے، اور انہیں موت کے خطرے کا سامنا ہے۔

Syrien al-Hol Flüchtlingscamp
شام کے الہول کیمپ میں مشتبہ جہادیوں کے 50 ہزار سے زائد اہل خانہ مقیم ہیںتصویر: Orhan Qereman/REUTERS

بچوں کے تحفظ کی بین الاقوامی تنظیم سیو دی چلڈرن نے گزشتہ سال ایک رپورٹ میں خبردار کیا تھا کہ الہول میں مایوس کن حالات کی وجہ سے اوسطاﹰ ہر ہفتے دو بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جبکہ اقوام متحدہ نے صرف 18 ماہ میں کیمپ میں 100 سے زائد لوگوں کے قتل کی اطلاع دی ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ اقوام متحدہ کی اس کمیٹی کی رائے اور سفارشات پر عملدرآمد لازمی نہیں ہے۔ کمیٹی کے مطابق  فن لینڈ نے بچوں کی واپسی کے لیے ان کے رشتہ داروں کی درخواستوں کا جائزہ لیتے وقت بچوں کے بہترین مفادات کو مناسب توجہ نہیں دی۔ اسکیلٹن نے کہا کہ ہم فن لینڈ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان بچوں کی زندگیوں کو محفوظ رکھنے اور انہیں ان کے اہل خانہ کے حوالے کرنے کے لیے فوری اور فیصلہ کن اقدامات کرے۔

ش ر ⁄ ع ط (اے ایف پی)