ڈنمارک کے جہادیوں کے بیرون ملک پیدا ہونے والے بچے، ڈینش نہیں
28 مارچ 2019ڈنمارک کی وزارت امیگریشن کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ یہ فیصلہ اُسی اصول پر کیا گیا ہے جس کے مطابق جن مذاہب کی ڈنمارک میں ممانعت ہے، ایسے مذاہب کے ماننے والے ڈینش باشندوں کے ہاں پیدا ہونے والے بچے اس ملک کی شہریت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اسی اصول کی بنیاد پر ڈنمارک سے تعلق رکھنے والے جہادیوں کے بچے بھی اس ملک کی شہریت نہیں رکھ سکیں گے۔
وزارت امیگیرشن کے نگران خاتون وزیر اِنگر اسٹوژبیرگ نے اس مناسبت سے اپنے بیان میں کہا کہ اِن بچوں کے والدین نے جہادی بن کر ڈنمارک کے قوانین اور ضوابط سے انحراف کیا ہے، اس لیے ایسے قانون شکن افراد کے بچوں کو ڈنمارک کی شہریت خود بخود دیے جانے کی کوئی مناسب اور ٹھوس وجہ نہیں ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ سن 2016 سے ڈینش قانون کے مطابق کسی اور سرزمین پر کسی تنظیم یا دہشت گرد گروپ کے ساتھ جنگی کارروائیوں میں شریک ہونا ایک مجرمانہ فعل قرار دیا جا چکا ہے۔ ایسے افعال سرزد کرنے والے تیرہ افراد کو ڈنمارک کی عدالتیں مجرم قرار دے چکی ہیں۔ ان میں سے نو افراد کی دوہری شہریت میں سے ڈنمارک کی شہریت منسوخ کرنے کے بعد ملک بدر بھی کیا جا چکا ہے۔ بقیہ چار افراد صرف ڈنمارک کی شہریت رکھتے تھے اور قید سزا بھگت رہے ہیں۔
ڈنمارک کی حکمران لبرل پارٹی نے ملکی جہادیوں کے بیرون ملک پیدا ہونے والے بچوں کو شہریت نہ دینے کی اس تجویز پر اتفاق عوامیت پسند سیاسی جماعت ڈینش پیپلز پارٹی کے ساتھ جمعرات اٹھائیس مارچ کو ہونے والے ایک اجلاس کے دوران کیا۔ اب اس تجویز کو ملکی پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ اس تجویز کے پارلیمنٹ میں پیش کرنے اور رائے شماری کا ابھی تعین نہیں کیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ میں پیپلز پارٹی اس تجویز کی حمایت میں حکمران پارٹی کو تعاون فراہم کرے گی۔
اس وقت شام میں جہادی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے شامی علاقے باغوس میں شکست کے بعد ہزاروں غیر ملکی جہادی اپنے اہل خانہ کے ہمراہ امریکی حمایت یافتہ عسکری گروپ سیرین ڈیموکریٹک فورسز کے قبضے میں ہیں۔ سیرین ڈیموکریٹک فورسز نے ان جہادیوں کے ممالک سے کہا ہے کہ وہ اپنے اپنے جہادی واپس بلائیں ۔ ان پر مقدمات چلانے کی آوازیں بھی بلند ہو رہی ہیں تاہم تا حال کسی بھی یورپی ملک نے اپنے جہادیوں کو قبول کرنے کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔