1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فوجی عدالتوں کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا، حکومت

شکور رحیم، اسلام آباد23 فروری 2015

پاکستان میں وفاقی حکومت نے ملکی سپریم کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات سے نمٹنے کے لیے ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔

https://p.dw.com/p/1Eg72
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں سپریم کورٹ کی عمارت
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں سپریم کورٹ کی عمارتتصویر: picture-alliance/dpa

وفاقی حکومت نے 21 ویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کے خلاف عدالت عظمٰی میں دائر سات مختلف آئینی درخواستوں پر پیر کے روز اپنا تحریری جواب سپریم کورٹ میں داخل کرایا۔ اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ کی طرف سے داخل کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ اس مقدمے میں درخواست گزار بار ایسوسی ایشنز کے بنیادی حقوق متاثر نہیں ہوئے ہیں۔

وفاق کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ کچھ عرصے میں صوبہ خیبر پختونخواہ اور کراچی سے دہشت گرد جیل توڑکر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے اور ان مفرور دہشت گردوں نے ملک بھر میں پرتشدد کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔

یہ دہشت گرد نہ تو ملکی آئین اور نہ ہی قانون کو مانتے ہیں اور وہ اپنا قانون اور اپنی مرضی پاکستان کے شہریوں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔خیال رہے کہ پاکستان میں وکلاء کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل اور مختلف بار ایسوسی ایشنز سمیت تیرہ درخواستوں نے اکیسویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کے قیام کو آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ سماعت پر حکومت کو ان درخواستوں پر جواب جمع کرانے کے لیے کہا تھا۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ناصرالملک نے گزشتہ سماعت کے موقع پر کہا تھا کہ حکومتی جواب آنے کے بعد اس معاملے کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دی جا سکتی ہے
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ناصرالملک نے گزشتہ سماعت کے موقع پر کہا تھا کہ حکومتی جواب آنے کے بعد اس معاملے کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دی جا سکتی ہےتصویر: Reuters

حکومتی جواب میں کہا گیا ہے کہ 21 ویں ترمیم اور فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستیں ناقابل سماعت ہیں، اس لیے انہیں خارج کیا جائے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پاکستان کے آئین کا کوئی بنیادی ڈھانچہ نہیں ہے اور نہ ہی عدالتی فیصلوں میں بھی کبھی آئین کے بنیادی ڈھانچے کو تسلیم کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر دنیا کے کسی آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہے تو اس کا باقاعدہ ذکر کیا گیا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ پاکستان اور اس کے ہمسایہ ملک بھارت کے آئین میں بہت زیادہ فرق ہے۔ بھارتی عدالتوں کے فیصلوں پر پاکستان میں من و عن اطلاق نہیں ہو سکتا۔ بھارتی عدالتی فیصلوں کا پاکستان میں اطلاق آئین کی روح کے منافی ہو گا۔

سپریم کورٹ کا تین رکنی بنچ جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 21 ویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف درخواستوں کی سماعت منگل کو کرے گا ۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ناصرالملک نے گزشتہ سماعت کے موقع پر ریمارکس دیے تھے کہ حکومتی جواب آنے کے بعد عدالت اس معاملے کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دے سکتی ہے۔

خیال رہے کہ پاکستانی پارلیمان نے سولہ دسمبر کو پشاور میں آرمی پبلک سکول پر طالبان کے حملے کے بعد دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

انہی اقدامات کے تحت منظور کی جانے والی 21 ویں آئینی ترمیم میں دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کی بھی منظوری دی گئی تھی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں