1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فوری گرفتاری کا خطرہ ٹلنے کے بعد عمران خان کا اگلا ہدف کیا؟

12 مئی 2023

عمران خان کی گرفتاری اور رہائی کے مختصر درمیانی عرصے میں رونما ہونے والے واقعات کا ملک پر دیر پا اثر ہو گا۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کے باجود سابق وزیر اعظم اپنا بیانیہ ترک نہیں کر رہے۔

https://p.dw.com/p/4RGxI
Pakistan | Imran Khan | ehemaliger Premierminister
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

پاکستان میں رواں ہفتے سیاسی درجہ حرارت اس وقت اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گیا، جب حکومت نے پاکستان  تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو مبینہ بدعنوانی کے ایک مقدمے میں گرفتار کر لیا۔ اس کے بعد ملک بھر میں پرتشدد احتجاج کا، جو سلسلہ شروع ہوا اس میں کم ازکم دس افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے جبکہ بڑے پیمانے پر سرکاری املاک اور ٹرانسپورٹ کو نقصان پہنچا۔

عمران خان کی عبوری ضمانت، حالات بہتر یونے کی امید

تاہم پہلے سپریم کورٹ کی جانب سے عمران خان کی رہائی کے حکم اور بعد میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف عمران خان کو سترہ مئی تک گرفتار نہ کرنے کے حکم نے وقتی طور پر ان کے حراست میں لیے جانے کے خدشے کا عارضی سدباب کر دیا ہے۔ بعض سیاسی مبصرین کے خیال میں ان تمام تر مشکلات اور چیلنجوں کے باوجود عمران خان اپنا جارحانہ طرز سیاست بدلنے پر آمادہ نظر نہیں آتے۔

'آرمی چیف ذمہ دار‘

تحریک انصاف کے کارکنوں کی طرف سے عمران خان کی گرفتاری کے خلاف جی ایچ کیو کے علاوہ کور کمانڈر لاہور کے گھر پر دھاوا بولنے کے بعد فوج کی جانب سے ایک سخت بیان جاری کیا گیا تھا۔ بعد میں عمران خان کی رہائی کا حکم دینے والی سپریم کورٹ کے ججوں نے بھی اس پرتشدد احتجاج کی مزمت کی تھی۔ اس کے بعد خیال کیا جارہا تھا کہ عمران خان اعلی ٰ فوجی شخصیات کے حوالے سے اپنے بیانات میں نرمی لائیں گے۔

تاہم اس کے بر عکس انہوں نے جمعے کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیشی کے موقع پر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہ ملک میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کا ذمہ دار صرف ایک فرد ہے اور وہ ان کے بقول آرمی چیف ہیں۔ نئے فوجی سربراہ جنرل عاصم منیر کا نام لیے بغیر عمران خان کا کہنا تھا کہ ''انہیں خطرہ تھا کہ میں بطور وزیر اعظم  ان کی تقرری نوٹیفکیشن منسوخ کر دوں گا۔‘‘

عمران خان تفتیشی ایجنسی سے تعاون کریں، سپریم کورٹ

پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کی مضبوطی کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹوو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان دانستہ طور پر سیاسی تصادم کے راستے پر چل رہے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، '' اس وقت فوجی افسران کے حوالے سے عمران خان کا بیانیہ دراصل ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔ عمران خان جو بھی کہتے ہیں، ان کے حامی اس پر یقین کرتے ہیں اور پھر آپ نے دیکھا کہ انہوں نے وہ کچھ کیا جو اب تک کوئی نہ کر سکا تھا۔ ‘‘

احمد بلال محبوب کے مطابق، ''عمران خان کی شروع دن سے یہ حکمت عملی رہی ہے کہ وہ اپنے مخالفین کے خلاف ایک ایسا بیانیہ ترتیب دیتے ہیں، جس کے بعد یا تو  ان کا فریق زچ ہو کر صلح صفائی کا راستہ اختیار کرتا ہے یا تو وہ پھر خاموشی اختیار کرنے میں ہی عافیت جانتے ہیں۔ اور میرے خیال میں اس میں عمران خان کے پیروکاروں کا  سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر تسلط ہے۔‘‘

اس بارے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''عمران جو بھی کہیں ان کے سوشل میڈیا فالوور اس کی زبردست تشہیر کرتے ہیں اور خاص طور پر وہ عمران خان کے مخالفین کے خلاف ایک ایسا محاذ کھول لیتے ہیں، جس سے اس فرد یا دارے کے لیے اپنا دفاع کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘

Pakistan Imran Khan Verhaftung Ausschreitungen
احتجاجی مظاہرے کرنے پر پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں سمیت سینکڑوں کارکن گرفتار کیے گئے تصویر: Muhammad Sajjad/AP Photo/picture alliance

گرفتار رہنما اور سخت حکومتی رویہ

ایک اندازے کے مطابق اس وقت عمران خان کی جماعت کے چالیس سے زائد اہم ترین رہنما بشمول ارکان پارلیمنٹ حکومتی قید میں ہیں اور ایسے میں بظاہر عمران خان کو مفاہمت کا رویہ اپناتے ہوئے انہیں رہا کرانے کے لیے حکومت سے بات چیت کرنی چاہیے۔ تاہم اس کے برعکس عمران خان اس بارے میں بھی کسی طرح کا سمجھوتا کرتے دکھائی نہیں دیتے۔

اسلام آباد میں قائم نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز کے ایک پروفیسر اور سیاسی امور کے تجزیہ کار طاہر ملک کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں حکومت کے لیے بھی عمران خان کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔

 انہوں نے کہا، ''نیب کےقوانین میں ترمیم موجودہ حکومت نے کی تھیں لیکن اس کا فائدہ عمران خان کو ہو رہا ہے۔ اب پہلے کی طرح نیب کسی کے خلاف بے دریغ کارروائی نہیں کر سکتی۔ اس وقت دکھائی یہ دے رہا کہ عدالتوں سے عمران خان کو بے مثال ریلیف دیا جار ہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عمران خان حکومتی اداروں کے درمیان اختلافات کا فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں۔‘‘

تاہم مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ سیاسی اور اقتصادی بحرانوں کے شکار ملک میں مزید عدم استحکام روکنے کے لیے عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مفاہمت کی راہ اپنانی چاہیے۔ طاہر ملک کا کہنا ہے اگر دونوں جانب سے مفاہمت کی راہ نہ اپنائی گئی تو یہ ملک سمیت کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا، ''عمران خان کا  آئندہ کا سیاسی  لائحہ عمل لازمی طور پر جلد انتخابات پر مرتکز ہو گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ وہ ملک کو سیاسی طور پر مزید تقسیم کیے بغیر کسی طرح اپنے مقاصد حاصل کر  سکتےہیں۔

پاکستان کا سیاسی مستقبل غیر یقینی کا شکار