قبرص کے ساتھ معاہدے پر ترک اعتراض بلاجواز، اسرائیل
20 دسمبر 2010اسرئیلی دفتر خارجہ کے ترجمان Yigal Palmor کا کہنا ہے،’یہ معاہدہ قبرص اور اسرائیل کا دو طرفہ معاملہ ہے، جو کسی تیسرے ملک پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ اس لئے ہمارا خیال یہ ہے کہ کسی تیسرے فریق کا اس پر اعتراض بلاجواز ہے۔'
انقرہ حکومت نے اپنے ہاں تعینات اسرائیلی سفیر کو اس معاملے پر وضاحت کے لئے دفتر خارجہ طلب کیا اور اسرائیلی دفترخارجہ کے ترجمان کا بیان اس صورت حال کے بعد سامنے آیا ہے۔
قبرص اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک اپنی سمندری حدود کا پھر سے تعین کریں گے، جس کے بعد ان کے درمیان اقتصادی تعاون بڑھانے کے لئے انتہائی خاص زون قائم ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ اس معاہدے کے بعد یہ دونوں ممالک مشرقی بحیرہ روم میں توانائی کے ذرائع کی تلاش کے علاوہ زیر سمندر تیل اور گیس کے ذخائر کی تلاش کے منصوبے پر بھی ساتھ کام کر سکیں گے۔
اس سے پہلے قبرص ایسے معاہدے مصر اور لبنان کے ساتھ بھی کر چکا ہے، جن پر اعتراض کرتے ہوئے ترکی نے عرب ممالک سے درخواست کی تھی کہ ان منصوبوں کو روکا جائے۔
واضح رہے کہ قبرص مشرقی بحیرہ روم میں ایک جزیرہ ہے۔ اس کے جنوبی حصے پر قائم یونان نواز حکومت کو اقوام متحدہ کی جانب سے تسلیم کر لئے جانے کے باوجود ترکی نے تسلیم نہیں کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی نے جنوبی حکومت کے اس معاہدے پر اعتراض کیا ہے۔ ترک دفتر خارجہ نے اسرائیل کے ساتھ ہونے والے اس معاہدے کو قبرص کےدونوں حصوں کے درمیان 36 سالہ علیٰحدگی کو ختم کرنے کی کوششوں کے لئے دھچکا قرار دیا ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی حکومت کے ایک عہدے دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ترک دفتر خارجہ کے اس بیان کو ترکی کی جانب سے ملک کے شمالی حصے پر قبضہ کئے رکھنے کے لئے ایک بہانہ قرار دیا ہے۔
ترکی کی جانب سے اس معاہدے پر اعتراض کی ایک بڑی وجہ دونوں ممالک کے درمیان وہ تناؤ ہے، جو31 مئی کواس وقت پیدا ہو گیا تھا، جب ترک امدادی فریڈم فلوٹیلا نے فلسطینیوں کے لئے امداد لے جانے کی کوشش میں غزہ پٹی کا محاصرہ توڑنے کی کوشش کی تھی۔ اسرائیلی فوج نے اس امدادی قافلے کو روکنے کے لئے اس پر حملہ کر دیا تھا، جس کے نتیجے میں نو ترک باشندے ہلاک ہو گئے تھے۔
رپورٹ: عنبرین فاطمہ
ادارت: ندیم گِل