قبرصی امن مذاکرات دو ریاستوں کے درمیان ہونے چاہییں، ترک صدر
20 جولائی 2021بحیرہ روم کے منقسم جزیرے قبرص کے ترک حصے میں منعقدہ ایک تقریب میں ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن بھی شریک ہوئے۔ یہ تقریب ترک فوجی کارروائی کے سینتالیس برس مکمل ہونے پر منعقد کی گئی۔ قبرص کا شمالی حصہ ترک کنڑول میں ہے اور اسے ایک علیحدہ ملک کے طور پر صرف ترکی نے ہی تسلیم کر رکھا ہے۔
یورپی یونین کے رہنما ترکی پر پابندی عائد کرنے پرمتفق
دوسری جانب یونانی قبرص کو بین الاقوامی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کی شناخت جنوبی قبرص سے نہیں ہے بلکہ صرف جمہوریہ قبرص ہے۔ قبرصی جزیرے کی طرح اس کا دارالحکومت نکوسیا بھی منقسم ہے۔
دو ریاستوں کا ترک تصور
شمالی قبرصی حصہ 'ترک جمہوریہ شمالی قبرص‘ کہلاتا ہے۔ اس نے باضابطہ طور پر جمہوریہ قبرص سے آزادی کا اعلان پندرہ نومبر سن 1983 میں کیا تھا۔ ترک جمہوریہ شمالی قبرص کی آبادی تین لاکھ چھبیس ہزار کے لگ بھگ ہے۔
بیس جولائی سن 1974 کی مناسبت سے منعقدہ تقریب میں تقریر کرتے ہوئے ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے واضح کیا کہ امن مذاکرات کا انعقاد براہِ راست دونوں قبرصی ریاستوں کے درمیان ہونا چاہیے۔ اس موقع پر ترک صدر نے شمالی قبرص کے حوالے سے اپنے ملک کی پوزیشن کا اعادہ کیا۔
یہ امر اہم ہے کہ قبرصی تنازعے کی وجہ سے ترکی کے یونان اور یورپی یونین کے ساتھ تعلقات کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ ایردوآن کے مطابق دہائیوں سے جزیرے کی مخدوش صورت حال میں بہتری صرف دونوں قبرصی ریاستوں کے درمیان مذاکرات سے ممکن ہو گی۔ انہوں نے اپنے حقوق کے دفاع کے موقف کی بھی وضاحت کی۔
'قبرص کا مسئلہ دو علحیدہ ریاستوں سے حل ہو سکتا ہے' ایردوان
قبرص کی تقسیم
قبرص کی تقسیم بیس جولائی سن 1974 میں ہوئی تھی۔ یہ تقسیم یونان کی فوجی حکومت کے ایما پر یونانی قبرص میں ہونے والی بغاوت کے جواب میں ترک فوجی کارروائی کا نتیجہ تھی۔ بیس جولائی سن 2021 کو شمالی قبرص میں جشن کا اہتمام تھا اور جنوبی قبرص میں لوگ اور حکومت کسی حد تک خاموش تھے اور اس دن کی مناسبت سے صبح کے وقت سائرن بجائے گئے۔
اقوام متحدہ قبرصی تنازعے کے حل کے لیے مذاکراتی عمل جاری رکھے ہوئے ہے لیکن ابھی تک اس میں مثبت پیش رفت کا کوئی امکان سامنے نہیں آیا ہے۔
شمالی قبرص کے انتخابات میں ترک نواز رہنما کامیاب
اس تنازعے میں مزید منفی صورت حال اس وقت سے پیدا ہے جب سے شمالی قبرص کے قریبی سمندری علاقے میں پائے جانے والے انرجی ذخائر پر ترکی، قبرص اور یونان کی جانب سے ملکیت کے دعوے سامنے آئے ہیں۔
ایک اور متنازعہ وجہ شمالی قبرص کا ایک ویران مقام واروشا کو دوبارہ سے سیاحتی سرگرمیوں کے لیے کھولے جانے پر بھی پیدا ہوا ہے۔ قبرص کی تقسیم سے قبل واروشا ایک اہم سیاحتی مقام تھا۔
ع ح ک م (روئٹرز)