1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمالی قبرص کے انتخابات میں ترک نواز رہنما کامیاب

19 اکتوبر 2020

شمالی قبرص کے صدارتی انتخابات میں ترکی کے ساتھ بہتر رشتوں کے حامی رہنما ایرسن تاتار کو کامیابی ملی ہے جبکہ جنوبی قبرص کے ساتھ اتحاد کے حامی صدر مصطفی اکنچی ہار گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3k7Al
Türkische Republik Nordzypern | Ersin Tatar
تصویر: Biro Bebek/Getty Images/AFP

شمالی قبرص میں انتخابی حکام نے اتوار 18 اکتوبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں وزیر اعظم ایرسن تاتار کو کامیاب قرار دیا ہے۔ تاتار کو دائیں بازو کا سخت گیر رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ وہ یونانی زبان بولنے والے جنوبی قبرص کے ساتھ اتحاد کے بجائے ترکی کے ساتھ مضبوط رشتوں کے حامی رہے ہیں۔

انتخابی کمیشن کے سربراہ کے مطابق تمام ووٹوں کی گنتی مکمل ہوگئی اور ایرسن تاتار کو 51 اعشاریہ 74 فیصد ووٹ ملنے کی وجہ سے انہیں کامیاب قرار دیا گیا جبکہ ان کے مد مقابل امید وار صدر مصطفی اکنچی 48 اعشاریہ 26 فیصد ہی ووٹ حاصل کرسکے۔

ایرسن تاتار کو انقرہ کی حمایت حاصل ہے اور وہ جنوبی قبرص کے ساتھ اتحاد کے بجائے جزیرہ پر ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے حامی ہیں۔ ترکی جنوبی علاقے کی آزادی اور خود مختاری کا حامی ہے تاہم دیگر ممالک اس موقف کو تسلیم نہیں کرتے۔ 60 سالہ تاتار کی کامیابی پر ترکی کے صدر طیب اردوان نے مبارک باد پیش کی۔

طیب اردوان نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں ترک قبرص کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے لکھا، ''ایرسن تاتار کے صدر منتخب ہونے پر میں انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ ترکی شمالی قبرص کے ترکش قبرص کے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی تمام تر کوششیں جاری رکھے گا۔

Bildkombo Wahlkampf Nordzypern | Mustafa Akinci & Ersin Tatar
صدر مصطفی اکنچی نے اپنے حامیوں سے خطاب میں اپنی شکست تسلیم کر لی اور کہا کہ اس کے ساتھ ہی ان کے سیاسی کریئر کا خاتمہ ہوا

صدر مصطفی اکنچی جنوبی قبرص کی 'جمہوریہ قبرص' کے ساتھ پھر سے متحدہ ہونے کے حمایت کرتے رہیں جہاں بیشتر افراد یونانی زبان بولتے ہیں۔ یہ خطہ یورپی یونین کا رکن بھی ہے۔ انہوں نے اپنے حامیوں سے خطاب میں اپنی شکست تسلیم کر لی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''ہم نے انتخابات میں ایسا مقابلہ کیا جو بہت نارمل نہیں تھا۔ ان نتائج کے ساتھ ہی میرے 45 برس کے سیاسی کریئر کا خاتمہ ہوا۔ میں اپنے لوگوں کی بھلائی کی نیک تمنا کرتا ہوں۔''

حیران کن نتائج 

گزشتہ ہفتے کے پہلے مرحلے کے انتخابات میں کوئی بھی امیدوار واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکا تھا جس کے بعد دونوں کے درمیان براہ راست مقابلے میں تقریبا دو لاکھ افراد نے ووٹ ڈال کر فیصلہ کیا۔ صدر اکنچی دوبارہ صدر بننے کی امید کے ساتھ میدان میں اترے تھے جنہیں سوشل ڈیموکریٹک امیدوار طوفان ایرحرمان کی بھی حمایت حاصل تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ ان کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں تاہم انہیں شکست ہاتھ لگی۔

سن 2015 میں اکنچی  نے 60 فیصد ووٹوں کے ساتھ  زبردست کامیابی حاصل کی تھی۔ انہوں نے انتخابات میں ترکی کی مداخلت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں ایسی بھی دھمکیاں مل رہی کہ وہ انتخابات میں حصہ نہ لیں۔ 

ترکی نے انتخابات سے محض دو روز قبل اپنے زیر اثر شمالی قبرص کے ساحلی علاقے وروشا کو کھول دیا تھا جس پر مقامی اور بین الاقوامی سطح پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ لیکن کامیاب امیدوار ایرسن تاتار نے اس کی حمایت کی تھی۔ قبرص شمالی اور جنوبی دو حصوں میں تقسیم ہے اور اس علاقے کے تعلق سے ترکی اور جنوبی قبرص کے درمیان برسوں سے تنازع رہا ہے۔ جنوبی علاقے کی حکومت کو عالمی برادری تسلیم کرتی ہے تاہم شمالی ترکش قبرص کی خودمختاری کو ترکی کے علاوہ کسی نے تسلیم نہیں کیا ہے۔ دونوں کے درمیان اتحاد کے لیے عشروں سے بات چیت بھی جاری ہے تاہم اس کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ 

جنوبی علاقے پر ترک قبرص فوجیوں کا کنٹرول ہے۔ صدارتی انتخابات میں کامیاب ہونے والے رہنماایرسن تاتار اب اقوام متحدہ کی ثالثی میں ہونے والی امن بات چیت میں خطے کی نمائندگی کریں گے۔ مشرقی بحیرہ روم میں ترکی، یونان اور قبرص کے درمیان توانائی کے ذخائر اور ان کی دریافت کے حوالے سے کافی اختلافات پائے جاتے ہیں اور اب اس مسئلے پر ترکی کو تاتار کی حمایت حاصل ہوسکتی ہے۔

گزشتہ ہفتے ترکی نے پھر سے اس علاقے میں توانائی کی دریافت کا کام شروع کر دیا ہے جس کی وجہ سے علاقے میں حالات پھر کشیدہ بتائے جارہے ہیں اور یورپی یونین نے ایک بار پھر اس معاملے پر ترکی پر نکتہ چینی کی ہے۔

ص/ز ج ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)

عمارتوں کا رنگین نخلستان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں