1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قبل ازوقت انتخابات: عمران خان کی پیشن گوئی زیر بحث

عبدالستار، اسلام آباد
1 اگست 2022

عمران خان نے اپنی پارٹی کے اراکین پنجاب اسمبلی کو انتخابات کی تیاری کا حکم دیتے ہوئے پیشن گوئی کر دی ہے کہ انتخابات اگلے چھے سے آٹھ ہفتوں کے درمیان کسی بھی وقت ہو سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4ExzL
Pakistan Afghanistan  Imran Khan
تصویر: K.M. Chaudary/AP/picture alliance

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا یہ بیان ملک کے کئی حلقوں میں زیر بحث بنا ہوا ہے۔ کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ عمران خان کے پاس کئی ایسے آپشنز ہیں، جس کو استعمال کر کے وہ ملک میں قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کر سکتے ہیں اور اس مقصد کی خاطر وہ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کو مجبور بھی کر سکتے ہیں۔

دوسری طرف کچھ اور مبصرین کا خیال ہے کہ عمران خان نے یہ شوشہ فنانشل ٹائمز کی رپورٹ سے توجہ ہٹانے کے لیے چھوڑا ہے۔

واضح رہے کہ عمران خان نے کل بروز اتوار ق لیگ کے رہنما چوہدری پرویز الہی اور پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی و رہنماوں سے لاہور میں ملاقات کی تھی۔

انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبون کے مطابق اس موقع پر عمران خان نے چوہدری پرویز الہی کو احساس پروگرام پر تیزی سے عملدرآمد کرانے کا کہا اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ریلیف کام کا بھی کہا۔

اس اخبار کے مطابق پی ٹی آئی کے سربراہ نے وسطی پنجاب کی صدر ڈاکٹر یاسمین راشد کو ہدایت کی کہ وہ دو ہفتے میں پارٹی کی تنظیم سازی کریں اور انتخابات کی تیاری کریں۔ عمران خان کی یہ ہدایات اور پیشن گوئی کئی حلقوں میں زیر بحث ہے۔

انتخابات کب ہو سکتے ہیں؟

پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' پارٹی تمام تر دباؤ کے باوجود ثابت قدم رہی اور جو لوگ پارٹی کو کمزور کرنا چاہتے تھے، اب وہ خود کمزور ہوگئے ہیں۔ اس صورت حال میں پارٹی انتہائی مضبوط ہوکر ابھری ہے اور پاکستانی سیاست میں صرف ایک شخص اہمیت کا حامل ہے اور وہ ہے عمران خان۔‘‘

اس رہنما کا کہنا تھا کہ پارٹی نومبر یا دسمبر میں انتخابات کی امید کر رہی ہے۔

عمران خان کے پاس کئی کارڈز ہیں

کچھ سیاسی مبصرین بھی عمران خان کی اس پیشن گوئی سے اتفاق کرتے ہیں اور ان کے خیال میں ملک انتخابات کی طرف جا رہا ہے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ عمران خان اتحادی حکومت کو انتخابات کرانے پر مجبور کر سکتے ہیں۔

اکرام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عمران خان کی حکومت دو صوبوں میں ہے جب کہ پاکستان کے زیر اتنظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی ان کی حکومتیں ہیں۔ اگر وہ چاروں حکومتوں کو ختم کر دیں، تو حکومت کے پاس انتخابات کرانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا کیونکہ ایسی صورت میں ملک ایک سیاسی بحران کا شکار ہو جائے گا۔‘‘

یہ بیان صرف ایک شوشہ ہے

پی ڈی ایم کا کہنا ہے کہ یہ صرف عمران خان کا ایک شوشہ ہے اور وہ کرپشن کے مقدمات سے توجہ ہٹانے کے لیے اس طرح کے بیانات دے رہے ہیں۔

جمعیت علما اسلام، جو اتحادی حکومت کی ایک اہم اکائی ہے، کے رہنما اور جمعیت کی شوری کے رکن محمد جلال الدین ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ عمران خان صوبائی حکومتوں کو کبھی بھی برطرف نہیں کریں گے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ صرف بڑکیں ہیں اور ان کا مقصد فنانشل ٹائمز کی رپورٹ اور کرپشن مقدمات سے توجہ ہٹانے کے لیے ہے۔ اول تو عمران خان صوبائی حکومتوں کو ہٹائیں گے نہیں اور اگر ہٹایا تو ہم دوبارہ سے انتخابات کرا لیں گے۔‘‘

محمد جلال الدین کا کہنا تھا کہ حکومت پی ٹی آئی کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہوگی، '' یہ کچھ بھی کر لیں انتخابات نومبر دو ہزار تئیس میں ہوں گے۔ اس کی توقع کے برعکس یہ بھی ممکن ہے کہ الیکشن ایک سال تک ملتوی کر دیے جائیں یا پہلے قومی اسمبلی اور بعد میں صوبائی اسمبیلوں کے انتخابات کرائے جائیں۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں