قذافی ’اب‘ اقتدار چھوڑ دیں، امریکی صدر
27 فروری 2011لیبیا میں قریب دو ہفتوں سے جاری حکومت مخالف مظاہروں اور اس پر سکیورٹی فورسز کے خونریز کریک ڈاؤن کے تناظر میں امریکی صدر باراک اوباما اور جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے مابین ٹیلی فون پر اہم گفتگو ہوئی ہے۔
اس گفتگو کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس نے کہا، ’ امریکی صدر نے واضح کر دیا ہے کہ جب کوئی رہنما اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیےاپنے ہی لوگوں کے خلاف طاقت کا ناجائز استعمال کرے، تو وہ اپنی قانونی حیثیت کھو دیتا ہے اور اسے ملک کے بہترین مفاد میں فیصلہ کرنا چاہیے۔‘
وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری کیے گئے بیان میں مزید کہا گیا،’ امریکی صدر اور جرمن چانسلر نے لیبیا کے موجودہ سیاسی بحران پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔‘ بتایا گیا ہے کہ جرمن حکومت نے لیبیا کے عوام کے ساتھ مکمل یک جہتی کا یقین دلایا ہے۔ اس سے قبل امریکی انتظامیہ قذافی کے بارے میں ایسا بیان دینے سے احتراز کر رہی تھی کہ انہیں ملکی اقتدار سے الگ ہو جانا چاہیے۔
امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن نے اوباما کے سخت مؤقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ قذافی کے مستقبل کے بارے میں لیبیا کے عوام نے اپنی ترجیحات واضح کر دی ہیں،’ اس سے قبل ہم یہ کہتے رہے ہیں کہ قذافی کی حکومت کے مستقبل کے بارے میں لیبیا کے عوام نے ہی حتمی فیصلہ کرنا ہے، اور اب لیبیا کے عوام نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ معمر قذافی اپنا اعتماد کھو چکے ہیں، اب انہیں مزید تشدد اور خون خرابے کے بجائے اقتدار چھوڑ دینا چاہیے۔
لیبیا کے بحران پر قبل ازیں امریکی انتظامیہ کے ردعمل کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا کہ وہ قذافی کی طرف سے اپنی ہی عوام پر خونزیز کریک ڈاؤن پر کھل کر بیان نہیں دے رہی ہے۔ واشنگٹن حکام کا کہنا ہے کہ لیبیا میں امریکی شہریوں کے انخلاء سے قبل کوئی بھی سخت ردعمل ان شہریوں کی سلامتی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا تھا۔
جمعہ کے دن امریکی حکام نے لیبیا سے اپنے شہریوں کے مکمل انخلاء کے بعد قذافی کی حکومت پر یک طرفہ پابندیوں کا اعلان کر دیا تھا۔ امریکی حکام نے واضح کیا ہے کہ قذافی کی حکومت پرعائد کی گئی نئی پابندیوں سے عوام کو نقصان نہیں پہنچے گا۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: افسر اعوان