قذافی توانا ہیں اور لیبیا کے دفاع کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، ترجمان
6 ستمبر 2011معمر قذافی کے ترجمان موسیٰ ابراہیم نے اپنے بیان میں کہا، ’ہم اب بھی طاقت ور ہیں۔ معمر قذافی کے صاحبزادے بھی اپنے ملک کے دفاع کے لیے اپنے حصہ کی ذمہ داریاں بانٹنے میں مصروف ہیں۔‘‘
موسیٰ ابراہیم نے، جن کے بارے میں خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ممکنہ طور پر وہ بنی ولید نامی شہر میں موجود ہیں، کہا، ’ہم موت یا فتح تک اپنی جنگ جاری رکھیں گے کیوں کہ ہم یہ جنگ لیبیا بلکہ پورے عرب کے تحفظ کے لیے لڑ رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ مالدار قبائل کبھی لیبیا کو فتح نہیں کر پائیں گے۔ ’’ہم ہر شہر اور ہر قصبہ آزاد کروائیں گے۔ ہم ہر آزاد شہر کا تحفظ کریں گے اور وہ بھی دوبارہ حاصل کریں گے، جو چھن گیا۔‘‘
اس سے قبل لیبیا کی نئی حکومت کے عسکری بازو نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ممکنہ طور پر معمر قذافی کے حامی فوجیوں نے بنی ولید میں عام شہریوں کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ لیبیا کی قومی عبوری کونسل کے عسکری بازو نے بنی ولید کا محاصرہ کر رکھا ہے۔
لیبیا کی عبوری کونسل کی وزارت دفاع کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر بنی ولید میں موجود قذافی مخالف افراد یا عام شہریوں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کی گئی، تو اس کا عسکری جواب دیا جائے گا۔
دریں اثناء مبینہ دہشت گردوں کے حوالے سے برطانوی خفیہ ادارے MI6 کے خلاف سامنے آنے والے الزامات کے بعد برطانیہ نے اس سلسلے میں انکوائری کا اعلان کیا ہے۔ الزامات میں کہا جا رہا تھا کہ برطانوی خفیہ ادارے نے بعض مبینہ دہشت گردوں کو قذافی حکومت کے حوالے کیا تھا، جن پر تشدد کیا گیا۔
دوسری جانب خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق لیبیا کے فوجیوں کے ہمراہ دو سو سے ڈھائی سو گاڑیوں پر مشتمل ایک بڑا قافلہ نائیجر میں داخل ہوا ہے۔ اس میں جنوبی لیبیا کی آرمی کے افسران بھی موجود ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے فرانسیسی فوجی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ممکنہ طور پر لیبیا کے سابق رہنما معمر قذافی اور سیف الاسلام قذافی بھی اس قافلے میں شامل ہو سکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہ قافلہ لیبیا سے الجزائر کے راستے نائیجر میں داخل ہوا ہے اور ممکنہ طور پر اس قافلے کی منزل افریقی ملک بورکینا فاسو ہے۔ اس سے قبل بورکینا فاسو نے معمر قذافی اور ان کے اہل خانہ کو سیاسی پناہ دینے کی پیشکش کی تھی۔
رپورٹ: عاطف توقیر
ادارت: امتیاز احمد