قذافی کے برکینا فاسو فرار ہونے کی اطلاعات
7 ستمبر 2011خبر رساں ادارے روئٹرز نے فرانسیسی فوجی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ممکنہ طور پر لیبیا کے سابق رہنما معمر قذافی اور سیف الاسلام قذافی بھی اس قافلے میں شامل ہو سکتے ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق دو سو سے ڈھائی سو گاڑیوں پر مشتمل لیبیا کے فوجیوں کے ہمراہ ایک بڑا قافلہ نائیجر میں داخل ہوا ہے۔ اس میں جنوبی لیبیا کی فوج کے افسران بھی موجود ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہ قافلہ لیبیا سے الجزائر کے راستے نائیجر میں داخل ہوا ہے اور ممکنہ طور پر اس قافلے کی منزل برکینا فاسو ہے۔ اس سے قبل برکینا فاسو نے معمر قذافی اور ان کے اہل خانہ کو سیاسی پناہ دینے کی پیشکش کی تھی۔
دوسری طرف نائجر کے وزیر خارجہ محمد بازوم نے مذکورہ قافلے میں معمر قذافی یا ان کے بیٹوں کی موجودگی کی تردید کی ہے۔ بازوم نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات درست نہیں ہے، اس میں قذافی موجود تھے اور نہ ہی قافلہ اتنا بڑا تھا جس کا پرچار کیا گیا ہے۔
ان اطلاعات کے کئی گھنٹنوں بعد الجزیرہ ٹیلی وژن نے خبر دی کہ باغی فورسز قذافی کے حامی شہر بنی ولید کے قبائلی عمائدین کے ساتھ معاہدہ کے قریب پہنچ گئی ہیں۔ الجزیرہ کے مطابق یہ معاہدہ حتمی طور پر آج دن میں کسی بھی وقت تکمیل تک پہنچ سکتا ہے، جس کے تحت باغیوں کی فوج لڑائی کے بغیر شہر میں داخل ہوسکے گی۔ قذافی کے حامیوں کی طرف سے جن علاقوں میں مزاحمت جاری ہے بنی ولید ان میں سے ایک اہم شہر ہے۔
دارالحکومت طرابلس سے تقریباﹰ ڈیڑھ سو کلومیٹر دور بنی ولید شہر میں قذافی کے حامیوں نے اس سے قبل ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ شہر ورفلہ بربر قبائل کا مضبوط گڑھ ہے جو قذافی کے وفادار تھے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے اپنے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ممکنہ طور پر فرانس نے معمر قذافی اور لیبیا کی نئی حکومت کے درمیان معاہدہ کرایا ہے۔ دوسری طرف فرانسیسی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان کی طرف سے نہ تو لیبیا کے فوجی قافلے کی نائجر پہنچنے کی خبروں کی تصدیق کی گئی ہے اور نہ ہی معمر قذافی یا ان بیٹے سیف الاسلام کے بارے میں کچھ کہا گیا ہے۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: حماد کیانی