قرآن کی بے حرمتی عدم برداشت اور تعصب ہے، اوباما
3 اپریل 2011امریکی صدر باراک اوباما نے ہفتہ کے روز ایک بیان جاری کیا جس میں قرآن کو نذر آتش کرنے اور اس عمل کے خلاف پرتشدد احتجاج دونوں کی مذمت کی گئی، ’’ کوئی بھی مذہب معصوم لوگوں کے سر قلم کرنے کی اجازت نہیں دیتا، اور ایسے افسوسناک عمل کو درست قرار دینے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔‘‘ وائٹ ہاؤس سے جاری بیان میں مذید کہا گیا، ’’ کسی بھی مقدس کتاب کی توہین، بشمول قرآن، ایک انتہائی ناقابل برداشت اور تعصب پر مبنی عمل ہے۔‘‘
امریکی صدر نے افغان شہر مزار شریف میں مارے جانے والے اقوام متحدہ کے اہلکاروں کے اہل خانہ اور دوستوں سے ہمدردی او تعزیت کا بھی اظہار کیا۔ اوباما کے بقول، ’’ یہی وقت ہے کہ ہم مشترکہ طور پر انسانیت کے جذبے کو فروغ دیں، جس کی بہترین مثال یو این کے ان کارکنوں نے پیش کی، جنہوں نے افغان عوام کی مدد کے دوران اپنی جانیں گنوادیں۔‘‘
صدر باراک اوباما نے عوام پر زور دیا کہ وہ مذہبی رواداری کو فروغ دیں، مستقبل میں اس قسم کے اشتعال انگیز اقدامات بیرون ملک متعین امریکی فوجیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
ٹیری جونز نے گزشتہ سال 11 ستمبر سن 2001 کے دہشت گردانہ حملوں کی برسی کے موقع پر قرآن کو جلانے کا اعلان کیا تھا تاہم انہوں نے اس وقت ایسا نہیں کیا۔ تاہم رواں سال 20 مارچ کو بھری کلیسا میں انہوں نے یہ فعل سر انجام دیا جسے امریکی میڈیا میں تو کوئی خاص ترویج نہیں ملی تاہم اس کی ویڈیو دیکھ کر اسلامی ممالک میں اشتعال پیدا ہوا ہے۔
افغانستان کے پرتشدد مظاہرے اس کی ایک مثال ہے۔ ٹیری جونز کا دعویٰ ہے کہ وہ مجموعی طور پر مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ محض انتہا پسند حلقے کے مخالف ہیں۔
ریاست فلوریڈا کے گینزوِل شہر میں قائم انتہائی چھوٹے سے چرچ Dove World Outreach Center کے پادری ٹیری جونز کے بنیادی عقائد کو انتہائی بنیاد پرست اور جارحانہ قراردیا جاتا ہے۔ ٹیری جونز پادری بننے سے پہلے ایک ہوٹل میں مینیجر تھے۔ وہ اب 22 اپریل کو مشیگن میں واقع ایک بڑی مسجد کے سامنے احتجاجی مظاہرے کا بھی منصوبہ بنائے بیٹھے ہیں۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عابد حسین