1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لاکھوں یمنی بچے فاقہ کشی کا شکار ہوسکتے ہیں: یونیسیف

26 جون 2020

یونیسیف نے اپنی ایک نئی رپورٹ میں متنبہ کیا ہے کہ اگر جنگ زدہ یمن کو فوری مالی امداد فراہم نہیں کی گئی تو وہاں قلت تعذیہ کا شکار بچوں کی تعداد 2020 کے اواخرتک 24 لاکھ ہوجائے گی۔

https://p.dw.com/p/3eNvQ
Jemen Kinder im Flüchtlingslager in der Provinz Hajjah
تصویر: picture-alliance/Photoshot/M. Al Wafi

یونیسیف نے جمعہ 26 جون کو اپنی رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا ہے کہ چونکہ اس وقت دنیا کورونا وائرس کی وبا سے دوچار ہے اس لیے مختلف ضرورت مند ملکوں کو ضروری مالی امداد نہیں مل پارہی جس سے ایک انسانی بحران سر پر آن کھڑا ہوگیا ہے اور اس کے نتیجے میں اس سال کے اواخر تک یمن میں لاکھوں بچے فاقہ کشی کا شکار ہوسکتے ہیں۔

بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم اقوام متحدہ کی ایجنسی نے کہا کہ اگر بین الاقوامی برادری نے بڑے پیمانے پر مالی امداد فوری طور پر فراہم نہ کی تو جنگ زدہ یمن میں پانچ برس سے کم عمر کے قلت تغذیہ کا شکار بچوں کی تعداد میں 20 فیصد کا اضافہ ہوسکتا ہے اور یہ 2.4 ملین تک پہنچ سکتی ہے۔

یونیسیف میں یمن کی نمائندہ سارا بیسلو نینتی کا کہنا تھا، ”اگر ہمیں فوری طور پر مالی مدد نہیں ملی تو بچے فاقہ کشی کا شکار ہوجائیں گے اور ان میں سے بہت سے بچوں کی موت ہوجائے گی۔ ہم اس ہنگامی صورت حال کی شدت کا اندازہ نہیں لگاسکتے ہیں۔“

خیال رہے کہ یمن پچھلے پانچ برسوں سے جنگ کی مار جھیل رہا ہے۔ وہاں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں اور بین الاقوامی طورپر تسلیم شدہ حکومت کے درمیان جنگ جاری ہے۔ اس حکومت کو سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے۔ پچھلے پانچ برسوں کے دوران ہزاروں افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ تشدد کی وجہ سے لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یمن میں جاری بحران کے ختم ہونے کی کوئی علامت نظر نہیں آرہی ہے اور اس کے پاس یمن کو مالی امداد برقرار رکھنے کی صورت مشکل دکھائی دے رہی ہے۔ یونیسیف کو امدادی سرگرمیوں کے لیے چالیس کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر کی ضرورت ہے جبکہ کووڈ 19 کا مقابلہ کرنے کے لیے الگ سے 53 ملین ڈالر کی ضرورت ہوگی۔ لیکن اس کے پاس ان دونوں کے لیے بالترتیب صرف39 فیصد اور 10 فیصد رقم ہی موجود ہے۔

یمن کا ہیلتھ کیئر کا نظام پہلے سے ہی خستہ حال تھا اور یہ ہیضہ، ملیریا اور ڈینگی جیسی بیماریوں کا مقابلہ نہیں کرپا رہا تھا اور کورونا وائرس کی وبا نے صورت حال مزید ابتر کردی ہے۔ حالانکہ یمن میں اب تک صرف ایک ہزار لوگوں کے کووڈ 19سے متاثر ہونے کی رپورٹ ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ میڈیکل انفرااسٹرکچر کی کمی کی وجہ سے بہت سے کیسز کا پتہ ہی نہیں چل پارہا ہے۔

یونیسیف کا کہنا ہے کہ یمن میں 78 لاکھ بچے اسکول نہیں جا پاتے جس کی وجہ سے ان کا استحصال کرتے ہوئے بچہ مزدوری، کم عمر میں شادی اور جنگجو گروپوں میں زبردستی شامل کیے جانے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔

نینتی کا کہنا تھا، ”یونیسیف نے پہلے بھی کہا تھااور ایک بار پھر اس امر کا اعادہ کررہا ہے کہ بچوں کے لیے یمن دنیا میں سب سے بدترین جگہ ہے اور مستقبل قریب میں صورت حال بہتر ہونے کی امید نہیں ہے۔“

ج ا /ص ز (ایجنسیاں)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں