یمن: ہیضے کی وبا پھیلتی ہوئی لیکن ویکسین رسائی کی منتظر
8 اپریل 2019یمن میں لاکھوں افراد ہیضے کے مرض میں مبتلا ہیں اور اب بھی ہر روز ہزاروں نئے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ سن 2017 کے موسم گرما میں اقوام متحدہ نے پہلی مرتبہ یمن میں ہیضے کے مرض سے بچاؤ کے لیے ویکسین پہنچانے کی کوشش کی تھی لیکن عالمی ادارہ ایک برس بعد مئی سن 2018 میں ہی ویکسین کی پہلی کھیپ یمنی حدود میں پہچا پایا تھا۔ اس وقت تک ایک ملین سے زائد یمنی شہری ہیضے کے مرض مبتلا ہو چکے تھے۔
اقوام متحدہ کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ یمن میں حوثی باغیوں اور حکومتی فورسز کے مابین جاری مسلح تصادم کے باعث ہیضے سے بچاؤ اور علاج کے لیے ادویات پہنچانے کا عمل اب بھی شدید متاثر ہو رہا ہے۔
اس معاملے سے باخبر اقوام متحدہ کے ایک اہلکار نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس کو بتایا، ’’ہیضے سے بچاو کی ادویات بروقت نہ پہنچائے جانے کی حقیقی وجہ حوثی باغی تھے،جنہوں نے ادویات لینے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ مئسلہ حل کیے جانے میں کئی ماہ لگ گئے۔حوثی باغیوں کا مطالبہ تھا کہ یہ ادویات اسی وقت قبول کی جائیں گیں جب ان کی فوجوں کے لیے ایمبولینسز اور طبی سامان بھی فراہم کیا جائے گا۔‘‘
ویکسین کی فراہمی کی اجازت نہ ملنے کے سبب امدادی اداروں کو ہیضے کی وبا پر قابو پانا مزید مشکل ہو گیا تھا۔ یمن میں اب تک یہ مرض قریب تین ہزار افراد کی ہلاکت کا سبب بن چکا ہے۔
عالمی ادارہ صحت اپنے پارٹنرز کے ہمراہ ہیضے کے علاج کے لیے کلینکس، طبی سہولیات اورادویات کی فراہمی کے علاوہ یمن کے صحت کے شعبے کی مدد بھی کر رہا ہے۔
ہیضہ کا سبب بننے والا بیکٹیریا
ہیضہ آلودہ پانی یا خوراک میں موجود ’بیکٹیریم وائبرو کولرا‘ سے پھیلتا ہے۔عام طور پر اس مرض کی علامات بہت کم ظاہر ہوتی ہیں لیکن شدید نوعیت کے معاملات میں اگر مریض کا علاج نہ کیا جائے تو اس کی چند گھنٹوں میں موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔تین سال سے زائد عرصہ سے جاری حکومتی فوجوں اور حکومت مخالف حوثی باغیوں کے درمیان جاری جنگ کی وجہ سے صحت کی سہولیات شدید متاثر ہوئی ہیں اور یمن کے محکمہ صحت کو ہیضے سے وبا سے نمٹنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ ادویات اور دیگر اشیا کی رسد میں تعطل خاصا طویل ہے اور تقریبا 30 ہزار طبی عملے کو قریب دو برس سے تنخواہیں بھی نہیں ملیں۔
یونیسیف اور ڈبلیو ایچ او کے مطابق ہیضے کی بہت تیز رفتاری سے پھیلنے والی اس وبا کے باعث شدید خدشہ ہے کہ یمن میں اس وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد آئندہ دنوں اور ہفتوں میں مزید بڑھ جائے گی۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق عراق، نائجیریا، جنوبی سوڈان اور شام کی طرح یمن میں بھی صورتحال انتہائی مخدوش ہے۔
یمنی بندرگاہوں سے خوراک کی درآمد پر پابندی کے سبب غذائی قلت کا بھی سامنا ماضی میں بھی رہا اور اقوام متحدہ نے سن 2017 میں بھی خبردار کیا تھا کہ ملک کی دو تہائی آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔