1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لاہور میں بین الاقوامی ادبی و ثقافتی کانفرنس کا آغاز

14 مئی 2011

پاکستان کے ثقافتی دارالحکومت لاہور میں ایک تین روزہ بین الاقوامی ادبی اور ثقافتی کانفرنس آج ہفتہ کے دن سے شروع ہو گئی ہے۔ اس کانفرنس میں ادب، موسیقی، ڈرامے اور مصوری سے تعلق رکھنے والے ماہرین کی بڑی تعداد شریک ہے۔

https://p.dw.com/p/11G1Z
تصویر: DW

اس کانفرنس کی مختلف نشستوں میں جن موضوعات پر مقالے پڑھے جا رہے ہیں، ان میں اردو شاعری کے کلاسیکی دریچے، پاکستانی مصوری میں نئی جہتیں، پاکستان میں کلاسیکی موسیقی کی تاریخ، اردو ناول کے سو سال، پاکستان میں غزل گائیکی کا مستقبل، ڈرامہ نگاری کا عروج و زوال، اردو افسانے کے سو برس، پاکستان میں لوک موسیقی کی روایت اور آرٹ کی ترقی میں ریاست کا کردار جیسے اہم اور متنوع موضوعات شامل ہیں۔

کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کے موقع پر سن 2010 میں ہونی والی اسی طرح کی گزشتہ کانفرنس کے مقالوں پر مبنی کتاب، نگارشات کی تقریب رونمائی بھی ہوئی جبکہ فنون لطیفہ کے میدان میں غیر معمولی خدمات انجام دینے والے ماہرین کو ‘الحمرا حاصل عمر ایوارڈ‘ بھی دیے گئے۔ موسیقی کے شعبے میں یہ ایوارڈ استاد غلام حسن شگن، مصوری میں پرفیسر خالد اقبال، ادب میں معروف ناول اداس نسلیں کے مصنف عبداللہ حسین اور ڈرامے کے میدان میں اداکار قوی خان کو دیا گیا۔

بیاسی سالہ استاد شگن نے اس موقع پر ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ عمر بھر کی ریاضت کے بعد اس ایوارڈ کا ملنا ان کے لیے بہت خوشی کا باعث ہے۔ انہوں نے حکومت سے التجا کی کہ وہ جس کسی فنکار کو بھی ایوارڈ دینا چاہتی ہے، اسے اس فنکار کی زندگی میں ہی دے دیا جائے۔ ان کے بقول بعد از مرگ ستائش کا کسی فنکار کو کیا فائدہ؟

Lahore Museum in Pakistan
لاہور میں آئے روز ثقافتی تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہےتصویر: AP

شہرہء آفاق ناول اداس نسلیں کے مصنف عبداللہ حسین نے کہا کہ ادب میں پچیس سالہ خدمات پر مختلف حکومتیں انہیں ایوارڈز دیتی رہی ہیں اور وہ مسلسل انکار کرتے رہے ہیں۔ ان کے مطابق وہ کسی ایسی حکومت سے ایوارڈ نہیں لینا چاہتے تھے، جس پر کرپشن کے الزامات ہوں۔ ان کے خیال میں موجودہ پنجاب حکومت پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں ہے، اسی لیے انہوں نے یہ ایوارڈ قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔

افتتاحی تقریب کے بعد ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے لاہور آرٹس کونسل کے چیئرمین عطاالحق قاسمی نے بتایا، ‘ہم نے مصوری، ڈرامہ، موسیقی اور لٹریچر کے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے ان کے باہمی مکالمے کا اہتمام کیا ہے‘۔ ان کے بقول ان چاروں شعبوں سے متعلق انسانی ذہنوں میں جتنے بھی سوالات ابھر سکتے ہیں، ان سب سوالوں کے جوابات مقالہ نگاروں سے مانگے گئے ہیں۔ عطاالحق قاسمی کے بقول برصغیر پاک و ہند میں غالباً یہ پہلا موقع ہے کہ فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبوں کے حوالے سے اتنی بڑی کانفرنس منعقد کی جا رہی ہے۔

بھارت سے آئے ہوئے پروفیسر اختر واسع نے بتایا کہ ان کے لیے یہ بات خوشگوار حیرت کا باعث ہے کہ اس کانفرنس کو شاعری اور افسانے تک محدود نہیں رکھا گیا ہے بلکہ جمالیاتی اقدار کی تشکیل کرنے والے تمام فنون پر بات کی جا رہی ہے۔

نامور ادیب محمود شام نے اس کانفرنس کے انعقاد کو سراہا۔ ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ معاشرتی ترقی کی لیے جدید سائنسی علوم کے ساتھ ساتھ فنون لطیفہ کی ترقی بھی ضروری ہے۔ ان کے مطابق دنیا میں ٹیکنالوجی کے حوالے سے ترقی یافتہ ملکوں میں بھی آرٹ اور لٹریچر پر بھرپور توجہ دی جا رہی ہے۔

محمود شام نے کہا کہ ادب انسانی زندگی کو خوبصورت بناتا ہے اور شاعری انسانی دماغ کو تر و تازہ کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ معروف ملٹی نیشنل کمپنی مارکس اینڈ سپنسر نے ایک شاعر کی ریزیڈنٹ پوئیٹ کے طور پر تقرری کی ہے۔ یہ شاعر ہر ہفتے کمپنی کے ملازمین کو اپنا کلام سنا کر ان کی ذہنی اور فکری تازگی کا سبب بنتا ہے، جس سے ملازمین کی ذہنی صلاحیتیں جلا پاتی ہیں اور ان کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔

اس کانفرنس کے دوران قومی تصویری نمائش اور محفل موسیقی کے علاوہ جدید اردو نظم کے مشاعرے کا اہتمام بھی کیا گیا ہے جبکہ کانفرنس کے دوسرے روز معروف ڈرامہ ’دُلا بھٹی‘ پیش کیا جائے گا۔ یہ کانفرنس پیر 16 مئی تک جاری رہے گی۔

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت: عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں