لز ٹرس کا برطانوی سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے پر غور
22 ستمبر 2022برطانوی وزیر اعظم کی ترجمان نے جمعرات بائیس ستمبر کے روز بتایا کہ لز ٹرس نے اسرائیل میں برطانوی سفارت خانے کی تل ابیب سے ممکنہ یروشلم منتقلی کا ذکر نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر اسرائیلی ہم منصب یائر لیپیڈ کے ساتھ ہونے والی ایک ملاقات میں کیا۔
غزہ کی لڑائی کا تیسرا دن: اسرائیلی فضائی حملے جاری، ہلاکتیں کم از کم تیس
اس ملاقات کے بعد اسرائیلی سربراہ حکومت نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں لکھا کہ وہ نئی برطانوی وزیر اعظم کی طرف سے اس بارے میں غور و فکر کیے جانے پر ان کے شکر گزار ہیں۔
یائر لیپیڈ نے ٹرس کو 'اسرائیل کی ایک حقیقی دوست‘ قرار دیتے ہوئے اپنی ٹویٹ میں لکھا، ''ہم مل کر برطانیہ اور اسرائیل کے دو اتحادی ممالک کے طور پر تعلقات کو مزید مضبوط بنائیں گے۔‘‘
یروشلم کی متنازعہ حیثیت
اسرائیل میں دیگر ممالک کے سفارت خانوں کی تل ابیب سے یروشلم منتقلی اس لیے بہت متنازعہ معاملہ ہے کہ یروشلم شہر کی حتمی حیثیت ابھی طے نہیں ہوئی۔ اسرائیل متحدہ یروشلم کے اپنا دارالحکومت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے حالانکہ یروشلم کا مشرقی حصہ اس نے 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اپنے قبضے میں لیا تھا۔
اسرائیل و فلسطین میں تشدد میں اضافہ، اقوام متحدہ کی تشویش
اس کے علاوہ فلسطینیوں کا بھی دعویٰ ہے کہ ان کی مستقبل کی آزاد اور خود مختار ریاست فلسطین کا دارالحکومت یروشلم ہی کا مشرقی حصہ ہو گا۔
جہاں تک بین الاقوامی برادری کا تعلق ہے تو وہ یروشلم شہر کی موجودہ حیثیت کو قطعی متنازعہ سمجھتی ہے۔ عالمی برادری کی رائے میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین مستقبل میں کسی بھی وقت بحال ہونے والے امن مذاکرات میں اہم ترین نکتہ یروشلم کے تاریخی شہر کی حتمی حیثیت کا تعین ہی ہو گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازعہ فیصلے
جہاں تک تل ابیب سے کسی بھی دوسرے ملک کے سفارت خانے کی یروشلم منتقلی کا سوال ہے تو امریکہ نے 2017ء میں ایک ایسا فیصلہ کیا تھا، جس نے ساری دنیا کو حیران کر دیا تھا۔تب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تاریخی حد تک جانب دارانہ اور وائٹ ہاؤس کی طرف سے قطعی یک طرفہ فیصلہ کرتے ہوئے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا تھا۔
یروشلم میں سفارتخانہ کھولنے کے منصوبے پر یورپی یونین کی تنبیہ
اس کے بعد مئی 2018ء میں ٹرمپ انتظامیہ ہی کے دور میں امریکہ نے تل ابیب سے اپنا سفارت خانہ یروشلم منتقل کر دیا تھا۔
تب ٹرمپ انتظامیہ کے ان دونوں اقدامات پر عالمی برادری اور خاص طور پر فلسطینیوں نے بھی کڑی تنقید کی تھی۔
اب تک چند دیگر ممالک بھی اسرائیل میں اپنے سفارت خانے تل ابیب سے یروشلم منتقل کر چکے ہیں۔
م م / ع ا (ڈی پی اے، اے پی)